Site icon روزنامہ کشمیر لنک

تیر بہدف

خضر رفیق

تیر بہدف

کوٹھا

جاڑے اورپت جھڑ کا موسم ہے،سردی ایسی کہ دانت بجتے ہیں،پت جھڑسبزے کازوال اورٹھنڈزندگی کا،دونوں مل کراس قدرستمگرہوچکےکہ کاروان حیات پے کپکپی طاری ہے،پتے پیلے ہوکرگرتے ہوے ایسی سرسراہہٹ پیداکرتے ہیں گویاکہ سمجھا رہے ہیں آپ کا بھی پیلا ہوکہ جاناٹھہرگیاہے،پتوں کی پیلاہہٹ بھی ایک پیغام ہے اگرکوی سمجھے تو،جولوگ کشمیر میں پت جھڑ کے موسم سے آشنا ہیں اُنہیں علم ہے کہ اِنسان اپنے آپ کو شام کےوقت کِتنا اُداس پاتاہے،میں اپنے ورانڈے میں ایک دوست کے ہمراہ بیٹھا ہُوں جو بلا کا تمباکُو نوش ہے،اپنی ہرفِکر کو دُھویں میں اُڑا رہا ہے، شام کے ساے وادیِ شاداب کو اپنی لپیٹ میں لے چُکے،وادی ایک اُداس دوشیزہ کی طرح دِن کی چادر اُتار کر رات کا لباس زیبِ تن کرتی ہوئی،ہمدمِ دیرینہ نے توجہ دِلاتے ہُوے کہا کہ سامنے دیکھو بنگلے ہی بنگلے وہ ہماراگارے سے لیپاہوا کوٹھا کِدھر گیا؟میں نے کہا کہ بھونچال نے ہمیں بے شمار صدمُوں سے دوچار کیا،ایک صدمہ یہ بھی ہے کہ ہمارا کوٹھاماضی کی یاد بن کر موت کے غار میں اُترگیا.قاریئن کےلیے یہ موضوع شاید دِلچسپی کا باعث نہ ہومگرمیرے لیے بے حددلچسپ اورپسندیدہ،میں اپنے احساسات سےدامن چھڑا نہیں سکتا،کوی اُلفت کادم بھرے یانہ بھرے میں آج رسمِ اُلفت ادا کرُوں گا،لفظ کوٹھا بڑاہی معنی خیز لفظ ہے شہری اور پہاڑی معاشروں میں اِسکے الگ الگ معنی ہیں،شہری تہذیب میں کوٹھا ایسے مکان کو کہتے ہیں جہاں طوائف قیام کرتی ہے، ناچنے اور مُجرہ کرنے والیاں اپنا تماشہ لگاتی ہیں،جہاں تماشہ،اہلِ کرم دیکھنے آتے ہیں، مجبوریوں کا ناچ کوٹھے پے برپا ہوتا ہے،پہاڑ کی دُنیا میں وہ مکانات اور گھر جو مٹی کے گارے اور پتھر سے بناے جاتےاُنہیں کوٹھا کہا جاتا ہے،میرے خیال کی دُنیا میں وہ کوٹھا کِسی تاج محل سے کم ہرگِز نہیں،یہ کوٹھا نشیبی علاقوں سے تو غیب ہوگیاالبتہ جولوگ آج بھی گرمیوں کاموسم گُزار نے ڈھوکُوں میں جاتے ہیں وہاں یہ کوٹھا جو ٹہارا کہلاتا ہےکی شکل میں موجُود ہے،سنگ وخِشت سے بنا وہ کوٹھا سردیوں میں ماں کی جھولی کی طرح گرم اور نرم، گرمیوں میں کوٹھا خاک کی بھینی بھینی مہک اورخُوشبُو کاباعث، خاک اور خاکی جب اِکٹھے ہوتےتو مسََّرت اور ٹھنڈک خُون میں یُوں دوڑ لگاتی ہےگویا کہ رُوح میں کِسی عطار نے سندل کی خُوشبُو بکھیر دی ہو،ہمارے کوٹھے پر تبسّم شوخیاں اور قہقہے ناچا کرتے تھے ہاے وہ شوخیاں وہ ہنسی وہ قہقہے نہ رہے،شاید اُن قہقہوں اور شوخیُوں کا ماخذمٹی کاوہ گارا تھا جِسکی لِیپای اِنسانی جِسم اور کوٹھے پرایک ہی طرح کی گئ تھی،اِنسانی جسم کا اگلا پڑاو بھی مٹی ہے،مٹی سے مٹی کا سفرجاری رہتاتو بڑی آسانیاں رہتی،ریشم واطلس سےمٹی کے سفر کاتصوراور پکے بندوبست جِگر کے آرپار ہوجاتے ہیں.قومیں آرام پرست ہوکرموت سے آنکھ مِلانا ترک کردیتی ہیں،اِقبالِ عظیم اِسی کیفیت پے لب کو جُنبش دیتے ہیں،جِسے مرنا نہیں آتااُسےجِینانہیں آتا،یہ کوٹھا ہمارے لئیے بڑی مہربان یاد ہے کیُوں نہ ہو؟ ہم پیدا جو اِس میں ہُوے،جنم بُھومی سے کِسے پیار نہیں؟قومُوں کی تاریخ میں بعض ایسے واقعات اور حادثات رونما ہوتے ہیں جو کلچر اور طرزِ تعمیر میں بہت بڑی تبدیلیاں برپا کردیتے ہیں بلکہ یہ کہاجاے تو بےجا نہ ہوگا کہ گردشِ ایام اور حادثاتِ زمانہ ثقافت اور تمدن کوتباہ کرتے ہیں اور ترتیب دینے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں،یہ حادثہ ہمارے ہاں 2005کازلزلہ ہے جس نے ہمارے کوٹھے کو تہس نہس کردیا.کوٹھا چُونکہ مٹی کے گارے اور پتھر سے تعمیر کیا جاتا ہے اِس لیے زلزلے کی تاب نہ لا سکا اور لوگوں میں یہ تاثر قائم ہوگیا کہ اب ہمارے ہاں زلزلے آتے رہیں گے اِس لیے کوٹھا ہمیں لقمہ ِاجل بنانےکےباعث ہوگا،ہم لوگُوں نے نئی طرزِ تعمیر اَپنالی اور اب یہ عالم ہے کے کوٹھا جس نے صدیوں ہمیں اپنی آغوش میں رکھا ہمیں ڈُھونڈنے سے بھی نہیں ملتا،ہم نے مذید کون سے صدمے اُٹھانے ہیں؟ چشمِ بِینادیکھنا شُرُوع کرےتو کھڑا ہونا محال ہوجاتاہے،جہاں ہمارے پیارے ہم سے جُدا ہُوے وہاں ہمارا کوٹھا بھی موت کی گہری خندق میں اُتر گیا،سانحہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تمدن کلچر اور تاریخ کا گہرا شعُور موجُود نہیں،ورنہ ہم اِسی کوٹھے کو زلزلہ پرُوف بنالیتے اندھی تقلید کے شوقین کو اپنی تاریخ اور کلچر سے دُور کرنا کون سا مُشکل کام ہے حضُور؟نئی تہذیب ہمیں ریاکاربنانے میں کامیاب ہوگئ اور ہم ہنس کی چال چل چکے،آئیے ذرا یاد کے گھوڑے دوڑاتے ہیں کے کوٹھے کانقشہ کیا ہوتا تھا یہ چارکُونوں والا ڈبہ نما مٹی کا گھرُوندا اپنے اندر دو قِسم کی دُنیارکھتا تھا ایک دُنیا اِنسانُوں کےلیے ہوتی جبکہ دُوسری دُنیا حیوانات کےلیے مُختص ہوتی اور اُس دُنیا کو گوَّال کہا جاتا تھا گوالا اور گوَّال لازم وملزُوم ہیں،یہ گوَّال کوٹھے میں ایسے ہی تھی جیسے کسی ریاست میں وزارتِ توانائی، دُودھ مکھن اور گھی توانائی کیلشیم اور وٹامن کا بندوبست گوَّال یعنی کہ وزارتِ توانائی کہ ذمے ہوتا،گوَّال کی دُنیا پرماں اور دادی کی عملداری ہوتی،جانوروں سے اِس قدر لاڈ کیاجاتاتھا کہ آج کے بچے کووہ لاڈپیارنہیں مِلتا،کوٹھے کاایک اور حِصہ اناج کےلیے مُختص ہوتا تھاجوکہ کِسی ریاست میں وزارتِ خوراک کی مانند تھا،یہ لکڑی کے پَھٹُوں سے چوکور شکل میں بنایا جاتا تھا کوٹھے کایہ حِصہ کوٹھار کہلاتا تھا جوکے بےحد اہمیت کاحامل تھا کوٹھار کے بغیر کوٹھے کا تصوَّر ادُھورا،کوٹھار کابراہِ راست تعلُق کوٹھےکی چَھت سےتھا،اناج کھیتُوں کھلیانوں میں دُبکی ہُوی عورتیں اور مرد کاٹ کُوٹ کے کوٹھے کی چھت پے جمع کر دیتےپِھردُھوپ لگاکہ خُشک کرنے کہ بعد ایک سُوراخ جو عام حالت میں لِیپای کرکے بندرکھاجاتاتھَاکوکھول کر اناج کوٹھار میں گِرادِیا جاتااور پُوراسال پیٹ کی آگ ٹھنڈی کی جاتی تھی جِس گھرکا کوٹھار جِتنا بڑا اور بھرا ہُوا ہوتا وہ گھر اُتنا ہی خُوش حال تصوَّر ہوتا گویاکہ کِسی بھی گھر کی معیشت کاپیمانہ کوٹھار تھا،لہکتے ہُوے پودے، دہکتے ہُوے کھیت چراہ گاہیں ریوڑمویشی کسان کوٹھا اور کوٹھار ہمارا پُورا معاشی ڈھانچہ ترتیب دیتے تھے،ظاہر ہے جہاں اناج کابندوبست تھا یہ کیونکر مُمکن ہوسکتا ہے کہ پکانےکا بندوبست نہ ہو،جی ہاں کوٹھے کہ درمیان چولہے اور انگیٹھی کا حسِین اِمتزاج آگ جلاےسب کہ پیٹ کی آگ کو ٹھنڈا کرتا، آگ جلاکے ٹھنڈک پیدا کرنا بھی عجیب داستان ہے،شدید سردیُوں میں سب کارُخ چُولہے کی طرف ہوتا عموماً جگہ کے تنازعہ پر چھوٹی چھوٹی جھڑپیں خانہ جنگی کی صُورت اِختیار کرلیتں ماں باپ کی مداخلت پے سفیدجھنڈا بلند ہوجاتا،یادرہے کے کوٹھے میں علیحدہ کیچن کاتصور نہیں تھا کیچن، خواب گاہ ڈرائینگ رُوم ایک ہی ہوتے البتہ جوصاحبِ حیثیت لوگ ہوتے اُن کا مہمان خانہ ذراالگ ہوتا،زندگی اِس قدر خفا اور ناراض نہیں تھی کہ ہم اپنے چھوٹے سے کوٹھے میں اُداسیوں اور تنگ نظریوں کہ صدمے اُٹھاتے،ہماراچھوٹاسا کوٹھا اِسقدر کشادہ اور عالیشان کے شوخیاں تبسَّم اور قہقہے ہروقت اُس کا طواف کرتے آج بھی زندگی کے کُچھ رنگ نہایت خُوبصُورت مگر کوٹھے والا آشیانہ عہدِگُم گُشتہ کی حسین یاد بن کررہ گیا ہے

Exit mobile version