طب کی دنیا میں ایک اور تہلکہ خیز تحقیق میں تیزی سے پیش رفت ہورہی ہے اور یہ تحقیق ہیومن اِمیونو ڈیفیشنسی وائرسز (ایچ آئی وی) کے علاج سے متعلق ہے۔یونیورسٹی کالج آف لندن، امپیریل کالج لندن، کیمبرج اور آکسفورڈ یونیورسٹیز کے محققین ایچ آئی وی کا علاج ڈھونڈنے کیلئے کافی عرصے سے عرق ریزی کررہے ہیں اور انہیں ان کی اس محنت کا صلہ بھی ملنے لگا ہے۔سائنسی جریدے ‘نیچر’ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں ڈاکٹرز نے دعویٰ کیا ہے کہ برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایچ آئی وی سے متاثرہ مریض میں اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کے بعد ایچ آئی وی کے وائرس ناقابل تشخیص سطح تک کم ہوگئے ہیں۔اسٹیم سیل یعنی خلیہء جذعیہ ایک ایسا خلیہ ہوتا ہے کہ جو مستقل تقسیم ہوتے رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس میں جسم میں موجود مختلف متخصص خلیات (specialized cells) بنانے کی غیر معمولی استعداد پنہاں ہوتی ہے اور اسی بنیاد پر یہ جسم میں انواع و اقسام کے مرمتی افعال انجام دیتا ہے۔لندن کا یہ شہری، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، کینسر کا بھی شکار تھا اور ابتدائی طور پر وہ ایچ آئی وی نہیں بلکہ کینسر کا علاج کروارہا تھا لیکن اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کے بعد مریض میں موجود ایچ آئی وی کے وائرسز ناقابل تشخیص حد تک کم ہوگئے اور اب وہ ایچ آئی وی سے مکمل نجات کی جانب گامزن ہے اور گزشتہ 18 ماہ سے انسداد ایچ آئی وی کی دوائیں بھی نہیں کھارہا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ علاج فی الحال دنیا میں ایچ آئی وی سے متاثرہ ہر شخص کے لیے نہیں ہے البتہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب یہ طریقہ ایچ آئی وی کے علاج میں معاون ثابت ہوگا۔لندن کے مذکورہ شہری میں ایچ آئی وی کی تشخیص 2003 میں اور ایڈوانس اسٹیج ہاجکن سیالومہ (ایک قسم کا خون کا سرطان) کی تشخیص 2012 میں ہوئی تھی تاہم اب اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کے بعد مریض ایچ آئی وی اور کینسر دونوں ہی بیماریوں سے پاک ہونے کے قریب ہے۔