سورج سے پھوٹنے والی کرنیں سارے نظام شمسی کو منور کرتی ہیں اور ہماری زمین پر بھی نباتات و حیوانات کی زندگی اور تروتازگی کا سبب بنتی ہیں۔ بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ سورج سے خارج ہونے والی روشنی آن واحد میں ہم تک پہنچ جاتی ہے لیکن حقیقت بہت ہی مختلف اور انتہائی حیرتناک ہے۔
اس طویل دورانیے کی اصل وجہ ذرات کا وہ سفر ہے جسے سائنسدان ’رینڈم واک‘ کا نام دیتے ہیں۔ اس نظریے کے مطابق سورج کے اندر پیدا ہونے والے فوٹان سیدھے راستے میں سفر نہیں کرتے بلکہ راستے میں موجود پروٹانوں سے ٹکراتے ہیں اور ادھر اُدھر بکھرتے رہتے ہیں۔ سورج کا رداس تقریباً 7لاکھ کلومیٹر ہے، اور یہ فاصلہ طے کرنے کے لئے فوٹانوں کو لاکھوں بار ٹکرانا اور راستہ بدلنا پڑتا ہے۔ جب ایک فوٹان سورج کے مرکز سے خارج ہوتا ہے تو یہ محض ایک ملی میٹر کے دسویں حصے پر ایک پروٹان سے ٹکرا جاتا ہے جس کے نتیجے میں اس کی توانائی پروٹان میں جذب ہوجاتی ہے۔ اس طرح پروٹان میں سے زیادہ توانائی کے ساتھ ایک اور فوٹان خارج ہوتا ہے اور اگلے پروٹان سے ٹکراجاتا ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو سورج کا مکمل رداس پارکرنے کے لئے ایک فوٹان کو بے شمار پروٹانوں سے ٹکرانا پڑتا ہے جس کے بعد یہ بالآخر سورج کی سطح تک پہنچ جاتا ہے۔ ایک بار سورج کی سطح پر پہنچ جائیں تو فوٹانوں کا سفر آسان ہو جاتا ہے۔یہ چاروں سمت بکھر جاتے ہیں اور ہمیں یہ روشنی کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ سورج کی سطح سے زمین تک پہنچنے کے لئے انہیں تقریباً 8منٹ 20 سیکنڈ کا وقت درکار ہوتا ہے، یعنی ان کا بیش تر وقت سورج سے باہر نکلنے میں ہی صرف ہو جاتا ہے۔ ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ سورج کی روشنی ابتدائی طور پر فوٹان ذرات کی صورت میں اس کے مرکز میں پیدا ہوتی ہے، لیکن جب تک یہ ذرات سورج کے مرکز سے نکل کر اس کی سطح اور ہم تک پہنچتے ہیں تو یہ تقریباً پانچ لاکھ سال پرانے ہو چکے ہوتے ہیں