انسانوں کے درمیان کوئی فرق نہیں، ان کا قبیلوں اور خاندانوں میں بانٹا جانا اس لئے نہیں ہوا کہ وہ اختلاف و انتشار کا شکار ہوں
* * * محب اللہ قاسمی ۔ نئی دہلی* * *
تمام انسان ،خواہ وہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں رہتے ہوں، کسی بھی مذہب کو ماننے والے ہوں مگراللہ کا بندہ ہونے، اپنی تخلیق ،شکل وصورت اور آدم کی اولاد ہونے کی حیثیت سے برابر ہیں۔ جیسے درخت کی شاخیں بہت سی ہوتی ہیں ، لیکن اس کی جڑ ایک ہوتی ہے۔اس لئے ان کا باہمی تعاون اور ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلو ک صالح معاشرے اور انسانیت کی بقا کیلئے بے حد ضروری ہے۔ اسلام نے انسانوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنے اور باہمی تعلقات کو خوشگوار بنانے پر زور دیا ہے۔اس نے واضح کیا ہے کہ تمام انسان کو اللہ نے ہی پیدا کیا ہے اس لئے ان سب کو اللہ سے ہی ڈرنا چاہیے:
’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔‘‘ (النساء 1)۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی دیگر مخلوقات پر فضیلت بخشتے ہوئے فرمایا:
’’یہ تو ہماری عنایت ہے کہ بنی آدم کو بزرگی (عزت) دی اور انھیں خشکی اور تری میں سواریاں عطاکیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت (فضیلت ) بخشی۔‘‘(بنی اسرائیل 70)۔
اس لحاظ سے تمام انسان ایک آدم کی اولاد ہیں اور انہی کی نسبت سے ان کے درمیان تعلقات قائم ہیں اس لئے کسی کو کسی پر کوئی فخرکی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔اللہ کے رسول ﷺ نے تمام انسانیت کو مخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایا:
’’اے لوگو!بلاشبہ تمہارارب ایک ہے اورتم سب کا باپ بھی ایک ہے،جان لوکہ کسی عربی کوکسی عجمی پراورنہ ہی کسی عجمی کوکسی عربی پر،نہ کسی گورے کوکسی کالے پر اورنہ کسی کالے کو کسی گورے پرکوئی فضیلت اوربرتری حاصل ہے ،سوائے تقویٰ کے۔ ‘‘ (مسنداحمد)۔
انسان بہ حیثیت مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہیں۔جس طرح ایک کنبہ میں مل جل کر خوش اسلوبی سے رہنے والا انسان اچھا مانا جاتا ہے ، اسی طرح اس دنیا میں امن و سکون اور محبت سے رہنے والا انسان اللہ کی نگاہ میں بہتر ہے۔اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’مخلوق اللہ کا کنبہ ہے پس بہترین مخلوق وہ ہے جو اللہ کے بندوں کیساتھ احسان اور بھلائی کا رویہ اختیار کرے۔‘‘(طبرانی)۔
اس لئے انسان دین اور مذہب کی بنیاد پرانسانوں کے درمیان جنگ وجدال مناسب نہیں ۔ رنگ ونسل کی وجہ سے اختلاف و انتشاردرست رویہ نہیں۔ مال ودولت کی وجہ سے کسی کو باعزت و باوقار سمجھا جائے اور غربت و مفلسی کے سبب ذلیل وخوار کیاجائے یہ صحیح نہیں بلکہ اچھے و برے کی اورعزت و شرافت کا پیمانہ یہ ہے کہ کون اللہ سے کتنا ڈرتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
’’اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرداورایک عورت سے پیداکیا(یعنی سب کی اصل ایک ہی ہے) اورتمہیں خاندانوں اورقبیلوں میں بانٹ دیاتاکہ تم ایک دوسرے کوپہچانو،بے شک اللہ کے یہاں تم سب میں زیادہ عزت والا وہ ہے جوتم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والاہے۔‘‘(الحجرات13)۔
اس آیت کریمہ میں اللہ نے صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ تمام انسانوں کومخاطب کیا ہے اور ان کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ تمام انسانوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ،بلکہ سب کی تخلیق ایک ہی انداز سے ہوئی ہے۔ ان کا قبیلوں اور خاندانوں میں بانٹا جانا اس لئے نہیں ہوا کہ وہ اختلاف و انتشار کا شکار ہوں یا آپس میں لڑیں ،بھڑیں اور خوں ریزی کریں، یا خاندانی حسب و نسب کے غرور میں چور ہوکر دوسروں کو نیچا سمجھیں بلکہ اس وجہ سے ہے تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے کی شناخت کرسکیں۔
اللہ تعالیٰ نے شرافت و سربلندی کا صرف ایک ہی معیار رکھا ہے اوروہ ہے تقویٰ، یعنی اپنے خالق و مالک کا ڈر ،مرنے کے بعد اپنے اعمال کی جوابدہی کا احساس۔ یہ معیار انسانوں کے دلوں کوباہم جوڑنے اور الفت ومحبت کے ساتھ رہنے کا پیغام دیتاہے۔نیک انسان اپنے کسی ذاتی مفاد کی خاطر کوئی ایسا اقدام نہیں کرتا جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہو بلکہ ہر حال میں وہ اپنے رب کی رضا کا خیال رکھتا ہے۔یہ قابل رشک خصوصیت کسی کے اندر ہے تو وہ باوقار، قابل اعتبار اور لائق احترام ہے، خواہ وہ کسی معمولی گھرانے میں پیدا ہوا ہو۔ پھر ایسے لوگوں کااللہ تعالیٰ نگہبان ہوتا ہے۔ انھیں کسی قسم کی پریشانی نہیں ہونے دیتا اور ان کی اس طرح مدد کرتا ہے کہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کیلئے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا۔‘‘(الطلاق 2)۔
اگر ہم سیرت کا مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ رسول اللہﷺ نے کفار و مشرکین اور اہل کتاب کے ساتھ انسانیت کے تحفظ اور قیام امن کیلئے بہت سے معاہدے کیے تاکہ ظلم وستم کا سد باب ہو، خوں ریزی کو روکا جاسکے ، کوئی مذہب کسی کیلئے وبال جان نہ بنے ، کسی کو محض اس لئے نہ قتل کرے کہ وہ دوسرے مذہب کا ہے یا دوسرے قبیلے اور خاندان سے ہے۔بلکہ لوگ بہ حیثیت انسان آپس میں ایک دوسرے کا احترام کریں۔اس کے ساتھ ہی آپ ﷺ انسانیت کے دشمن پر بھی کڑی نظر رکھتے تھے تاکہ کہیں کوئی فساد سر نہ اٹھاسکے اور انسانیت کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔
انسان جب اپنی اس حیثیت کو بھول جاتا ہے یااحساس برتری میں مبتلا ہوجاتا ہے تو فتنہ وفسادپر آمادہ ہوجاتا ہے۔ پھرحسد، کبر، غیبت ، چوری ،چغلی، قتل و غارتگری، بدکاری و بداخلاقی جیسی بیماریوں کا شکار ہوجاتاہے۔اس صورت میں اس کی اصلاح و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مولانا حالی ؒ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
آج انسان اپنی عظمت کھو بیٹھا ہے ، غلط جگہ پر اپنا معیار و وقار تلاش کررہا ہے، دنیا کے عارضی عیش وآرام کو اپنی زندگی کا مرام(مقصد)بنا لیا۔ پوری طرح خواہشِ نفس کا غلام بن کر بے غیرتی اور بے عزتی کے حدود پار کررہاہے۔انسانی جان کا کوئی احترام باقی نہیں رہ گیا ۔انسان کے وہ سارے اخلاقی اقدار جن سے انسان اور شیطان میں امتیاز ہوگم ہوتے جارہے ہیں۔نتیجہ پوری دنیا تباہی کے دہانے پر آگئی ہے۔ایسے میں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ بہ حیثیت انسان لوگوں کا باہمی میل اور اس کے تعلقات خوشگوار ہوں اور بھولے بھٹکوں کو سیدھی سچی راہ دکھائی جائے،مذہب اور گروہ بندی کی بنیاد پر کسی قسم کی کوئی لڑائی نہ ہو۔ انھیں اس نظام سے آگاہ کرایا جائے جو انسانیت کا خیرخواہ اور فلاحِ دارین کا ضامن ہے۔