Site icon روزنامہ کشمیر لنک

ترکی: 3ہزار سال پرانے قلعہ کا سراغ

انقرہ ….. ترکی کی سب سے بڑی جھیل میں پانی کے اندر سے 3ہزار سال پرانے قلعے کا سراغ ملا ہے۔ تفصیلات کے مطابق غوطہ خور اچانک ایک ایسی جگہ پہنچ گئے تھے جہاں پتھر کی بڑی چٹانوںسے بنائی گئی چار دیواری کا کچھ حصہ موجود تھا۔ غوطہ خوروں نے پانی سے باہر نکل کر سب کو اس بارے میں بتایا تو ماہرین کی ایک ٹیم بھی انکے ساتھ پہنچی تو پتہ چلا کہ یہ چٹانیں اصل میں اس قلعہ کی فصیل ہیں جو اب سے 3ہزار سال قبل تعمیر ہوا تھا اور انتہائی پراسرار سمجھے جانے والی ارارتو تہذیب کے دور سے تعلق رکھتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ غوطہ خوروں نے اس فصیل کے بار ے میں اب سے 10سال قبل ماہرین کو اطلاع دی تھی اور گزشتہ 10سال سے ماہرین آثار قدیمہ اور سائنسدان سب ہی حقیقت جاننے میں مصروف تھے اور اب اتنے عرصے میں پہلی بار انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ تحقیق و تجربے کے بعدیہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ یہ 3ہزار سال پرانے قلعہ کی باقیات ہیں۔ یہ جھیل لیٹوان کے نام سے مشہور ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پانی کے نیچے ہزاروں سال تک پڑے رہنے کے باوجود قلعہ نسبتاً اچھی حالت میں ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ فصیل بڑی بڑی چٹانوں سے بنی تھی اسلئے اسکی باقیات رہ گئی ہیں جبکہ قلعہ کا زیریں حصہ پانی کے اندر زمین میں دھنس چکا ہے۔ مقامی یونیورسٹی کے شعبہ آثار قدیمہ کے سربراہ مصطفی آکوس اور غوطہ خور جمالی بائیرول کا کہناہے کہ جب انہوں نے پہلی بار اسے دیکھا تھا تو آنکھوں پر یقین نہیں آیا اور انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ کسی ڈوبے ہوئے روسی جہاز کا حصہ ہے تاہم 10برس سے زیادہ عرصے کی تگ و دو نے اپنا رنگ دکھایا اور حقیقت سامنے آگئی۔ اخبار حریت نے اس خبر کو صفحہ اول پر شائع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس جھیل کے آس پاس ان گنت تہذیبیں پائی جاتی تھیں اور مختلف اقوام نے یہاں ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ دیومالائی اعتبار سے ارارتو تہذیب کا دارالحکومت بحیرہ اسود کے جنوب مشرق میں واقع پہاڑیوں میں تھا۔ آج یہ علاقہ آرمینیا، مشرقی ترکی اور شمال مغربی ایران کا حصہ بن چکا ہے۔

Exit mobile version