بول سے بھی ’بولڈ‘ ورنہ سب کو چونکادینے والی اور جگادینے والی فلم ہے اور فلم میں بہت کچھ ایسا ہے جو واقعتاً بالکل ’ہَٹ‘ کر ہے۔
ورنہ میں عورت کے ساتھ ’زیادتی‘ تو ہے لیکن یہ فلم نہ تو ’قابل‘ہے، نہ ’بھومی‘ نہ ’مُام‘ نہ ’ماتر‘ اور نہ ہی ’مالک‘۔ ورنہ اِن سب فلموں سے بالکل الگ بھی ہے اور اوپر بھی۔
یہ فلم طاقت ور ظلم کیخلاف کمزور سچ کی جنگ، بدلے اور جیت کی ایسی کہانی ہے جسے دیکھنے والے برسوں یاد رکھیں گے۔
فلم میں قربانی دینے ’والی‘ اور بدلہ لینے ’والی‘ ہیرو ہے تو دوسروں سے ”سب“ کچھ چھین لینے والا خبیث اور طاقتور ولن بھی موجود ہے۔فلم میں برے سیاستدان ہیں تو نیک عوامی نمائندوں کی بھی نمائندگی ہے۔جھوٹ کے بول بالا کیلئے عیار اور مکار وکیل ہے تو سچ کی جیت کیلئے قانون کی جنگ لڑنے والی ایماندار اور ہوشیار وکیل کی بھی انٹری ہے۔
فلم کی کہانی اور جذبات لکھنے والے یا بتانے والے نہیں خود سینما جا کر دیکھنے اور یقین کرنے کے ہیں، فلم میں زوردار ڈائیلاگ ڈرامہ ہے ساتھ میں سسپنس اور ٹوئسٹ کے تڑکے بھی لگے ہیں۔
فلم صرف جہانگیر اور شادی شدہ نورجہاں کی داستان نہیں اس میں اُسی زمانے کی انار کلی کی بھی جھلک ہے اور کئی ایسے سین ہیں جنھیں آپ بھول نہیں پائیں گے۔
ماہرہ خان کا اغواپھر زیادتی پھر خاموشی پھر ان سب کے پیچھے چھپی کہانی سے تھیٹر میں بیٹھے لوگوں کو زور کا جھٹکا زور سے ہی لگتا ہے، ماہرہ خان کا شوہر بے بس کیوں ہوتا ہے؟ماہرہ خان اغوا کیوں ہوتی ہے؟ماہرہ بدلے کا فیصلہ کیوں کرتی ہے؟کون کون اس عورت کا ساتھ دیتا ہے ؟عورت کوانصاف مانگنے کیلئے سب سے پہلے مخالفت کہاں سے ملتی ہے؟۔
ماہرہ بدلہ لینے میں کامیاب کیوں نہیں ہوتی؟ اینڈ میں کیا ہوتا ہے؟سب دیکھنے کے بعد آخر میں سینما ہال میں تالیاں بج رہی تھی اور یہ تالیاں صرف خواتین یا لڑکیاں نہیں بلکہ ابا ،بھائی ،بیٹے اور سب سے بڑھ کر منچلے لڑکوں کا گروپ بھی انتہائی سنجیدگی سے بجارہا تھا۔
فلم کی سنجیدہ کہانی، دھواں دار مکالمے، پر اثر ہدایتکاری اور زبردست ایکٹنگ کی موجودگی میں مہنگی لوکیشن اور سیٹ، گلیمر، آئٹم سانگ اور کلر کریشن کے سہاروں کی جگہ بنی نہ انھیں استعمال کیا گیا، فلم جو ہے وہی دکھتی ہے اور فلم کا بجٹ بھی اس فلم کے ہیروز میں سے ایک ہے جس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے ۔
یہی بجٹ پاکستان سمیت دنیا بھر میں بزنس اس فلم کو اس سال کی سب سے منافع بخش فلم بناسکتا ہے۔
فلم کی ہیرو اور ولن کی ایکٹنگ کی بات بعد میں ،سب سے پہلے ذکر رشید ناز صاحب کا جنھوں نے ماہرہ اور ضرار کی زبردست ایکٹنگ کے باوجود سارا شو چرالیا، فلم دیکھنے والے یہ فیصلہ نہیں کر پارہے ہوتے کہ اس کریکٹر کیلئے تالیاں بجائیں یا اس کو گالیاں دیں۔
فلم دیکھنے والوں کیلئے تو رشید ناز صاحب کی ایکٹنگ ہی پیسہ وصول ہے اور باقی سارا بہت سارا ’پلس‘ بونس میں، کھانے کی میز سے کورٹ کے کٹہرے تک اس کریکٹر نے ہر جگہ اپنی اداکاری کی مہر لگائی۔
رشید ناز کا ”ڈی این اے“ والا مکالمہ سب کو برسوں یاد رہے گا اور ولن کے مینجر کا کردار ادا کرنے والے اداکار رانا آفتاب نے بھی یادگار اداکاری کی ہے، ان کا بھی انداز منفی ہونے کے باوجود سب کو پسند آئے گا۔
رانا کی ٹریلر میں بھی انٹری تھی اور فلم میں سینما کے اندر رانا کا ہارون شاہد کومخصوص انداز میں دیکھ کر ہنسنا اور ہارون کو ہی بولا گیا مکالمہ کہ’میراثی ہو کر غلط سُر لگارہے ہو‘ سب کی خوب داد وصول کرے گا۔
ماضی کے موثر اور وجیہہ ہیرو ڈاکٹر طارق رحیم نے بھی بڑے عرصے بعد انٹری دی ہے ، وہ اپنے رول میں خوب جچے ان کے ’برگر‘ والے مکالمے پر تالیوں کے ساتھ سیٹیاں بھی بجی تھیں۔ ولن کے باپ کا کردار الفابراو چارلی میں کیپٹن فراز کے والد کا کردار ادا کرنے والے اداکار نے کیا ہے ۔یہی وہ کردار ہے جس کیلئے غالباََ کہا جاتا ہے کہ فلم کو سینسر کے دوران مشکلات دیکھنی پڑی اور اسلام آباد میں پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔
ورنہ میں مرکزی کردار ماہرہ خان نے ادا کیا ہے جو سینما پران کی زندگی کا اب تک کا سب سے پاور فل کردار ہے ایسا کردار جو رئیس، ہو من جہاں، بن روئے، منٹو اور بول سے بہت بہتر ،آگے اور چیلنجنگ ہے۔
پاکستانی فلم انڈسٹری کی خوش قسمتی ہے کہ اس سال چلے تھے ساتھ میں سائرہ شہروز، پنجاب نہیں جاؤں گی میں مہوش حیات اور ورنہ میں ماہرہ خان جیسے مضبوط، خوبصورت اور مختلف کردار سامنے آئے اور ابھی ’ارتھ ٹو‘ کے ٹریلر سے عظمی حسن نے بھی انٹری دے دی ہے۔
ان چاروں میں بھی مہوش حیات کے کردار کوماہرہ خان کا کردار ہر ایوارڈ میں چیلنج کرے گا اور بد قسمتی سے سب ایوارڈز میں بہترین اداکارہ کا ایوارڈ ایک ہی ہوگا۔
ماہرہ کے گھر واپسی کے بعدتاثرات، شوہر سے پہلے جھگڑے، ولن کے ساتھ انٹر ویل سے پہلے کشتی اور کورٹ میں پیشی والے سین لاجواب اور پر اثر ہیں۔ فلم کا انٹر ویل بھی بہت موزوں جملے اور سین پر ہوتا ہے، ماہرہ پوری فلم میں اسی سین میں سب سے زیادہ خوبصورت لیکن ساتھ ہی ڈری اور سہمی ہوئی لگ رہی تھیں۔
ولن کا کردار ضرار خان کو ملا ہے جو ظالم، مکار اور طاقتور ہے جو اپنے ’نسلی ملازموں‘ کو بھی نہیں چھوڑتا اور پانی کے گلاس والا سین بھی ولن کے تکبر اور ظلم کو ایک ساتھ بیان کرتا ہے۔
اگر پاکستانی ایوارڈز والوں نے ولن کے کردار کو بھی بہترین اداکار کی کیٹگری میں جگہ دی تو ضرار خان کا کردار نامعلوم افراد کے جاوید شیخ اور پنجاب نہیں جاؤں گی کے ہمایوں سعید کو ایوارڈز کی تقریبات میں ضرور چیلنج کرے گا۔
ضرار اور ماہرہ کے ’اسٹاک ہوم سنڈروم‘ والے مکالمے بھی ڈارک کامیڈی کا حصہ ہیں۔
ماہرہ کے شوہر ہارون شاہد اور نیمل خاور کے کردار بھی بہت اہم ہیں جس میں سے ہارون شاہد نے بے بس شوہر کا کردار ادا کیا ہے اور نیمل خاور نے ان کی بہن اور ماہرہ خان کی نند کا۔
فلم میں رومانس بہت کم ہے اور ایکشن نہ ہونے کے برابر، سوشل ڈرامے کے ساتھ پولیٹیکل ڈرامہ زبردست ہے، کامیڈی تو میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں لیکن کورٹ ڈرامہ بہت سارا ہے۔
فلم ہمیں بہت ساری ایسی خبریں اور واقعات بھی یاد دلادیتی ہے جہاں ظلم سہنے والے کمزور متاثرین کو لالچ، طاقت اور ڈر سے یا ملک سے باہر بھیج کر مٹی پاؤ بھول جاؤ والے فارمولے سے ”انصاف“ کرایا گیا ہو لیکن یہ اس عورت کی کہانی نہیں جو اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور ظالموں سے ڈرجاتی ہے یا کوئی ”سمجھوتہ “ کرلیتی ہے بلکہ اس عورت کی داستان ہے جو انصاف کیلئے ڈٹ جاتی ہے ۔
فلم میں زیادتی، تسلی، لالچ، برداشت، محبت، جھوٹ، سچ، بدلہ، سیاست، ریاست، حکومت، طاقت، انصاف، ہمت، جدو جہد،کشمکش، بدلہ، انتقام اورسب سے آخر میں انجام سب کچھ تو ہے۔
فلم نے دکھایا ہے کہ ایک شادی شدہ عورت کا اپنے خلاف ہونے والے ظلم اور ”زیادتی“ پر آواز اٹھانا خود اس کیلئے کتنی بڑی مشکل پیدا کردیتا ہے جب شوہر کے ذہن میں بطور انسان” ظلم“ کی شدت سے زیادہ بطور مرد کا ”شک “ غالب آجاتا ہے۔
اپنے ماں با پ ہی جب رسوائی اور ظالم کے خوف سے ”چپ “ رہنے اور ”معاف“ کرنے کا درس دیتے ہیں، جب ظلم کرنے والا ظالم ہی نہیں اپنے زمانے کا طاقتور ترین لوگوں میں سے ہو جس کی ”پاور“ کے سامنے زمانہ بھی جھکتا ہو، کمزور ” سسٹم“ بھی اس کا گریبان پکڑنے کے بیچ میں رکاوٹ ہو۔انصاف اور قانون کے تقاضے مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو ۔سول سوسائٹی آپ کے ساتھ ہو لیکن زمانہ خلاف۔کمزور کی آواز کو دبانے کیلئے صرف طاقت ہی نہیں دولت، روپیہ، پیسہ سب استعمال ہورہا ہو لیکن ہمت دکھا کر اپنے ہاتھوں سے انتقام ہی دشمن کا آخری انجام ہو۔
کسی بھی فلم کی ریلیز کی ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے ۔ورنہ کی ریلیز کے وقت ہالی وڈ کے گندی نظر والے طاقتور اور بڑے پروڈیوسر ہاروی وینسٹن کی ”حرکتوں“ اور ”زبردستی “ کیخلاف اٹھنے والی آوازوں کی بھی گونج ہے اور ہمارے ملک میں طاقت رکھنے والوں اور لمبی لمبی گاڑیوں کے پروٹوکولز کی بھی ۔ان سب سے اور ”می ٹو“ کے ٹرینڈ سے بھی دیکھنے والوں کیلئے فلم کی اہمیت اور بڑھی ہے۔
ماہرہ اور رنبیر کی تصویروں اور سینسرمسائل کی خبروں سے بھی فلم کو انجانے میں سہی لیکن بڑی،زیادہ اور مفت کی پبلسٹی ملی ہے۔دوسری طرف فلم کی اوپننگ کو کراچی اور اسلام آباد کے حالات کی وجہ سے تھوڑا سے نقصان بھی ہوا ہے ۔
فلم تھوڑی سی سلو اور لمبی ہے ،ایڈیٹنگ کافی شارپ ہونی چاہیے تھی۔فلم کی عکاسی فلم کی سچویشز کی مدد کرتی ہیں، فلم کا میوزک اور گانے موزوں ہیں لیکن مقبول نہیں۔
فلم کے مکالمے تیز، تیکھے اور زوردار ہیں بطور ہدایتکار شعیب منصور اس فلم میں بطور پروڈیوسر اور رائٹر زیادہ کامیاب رہے ہیں۔ فلم کے ہر کردار اور شعبے میں شعیب منصور کا فلیور ہے، جب ”کانٹینٹ“ بہت مضبوط ہو تو کرین، لوکیشن ،کلر کریکشن کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی جتنی ہمیں باقی فلموں میں نظر آتی ہے اور اب اسے ہی پروڈکشن ویلیوز کہا جاتا ہے۔
خدا کیلئے اور بول کے بعد اس فلم میں بھی شعیب منصور نے سب کی سوچ کو براہ راست چیلنج کیا ہے اور ان فلمیں ”خدا کیلئے“ اور ”بول “ دیکھنے والے بھی جانتے ہیں وہ فلم سے جُڑنے اور فلم کو دل سے پسند کرنے کے باوجود سینما سے مسکراتے ہوئے قہقہے لگاتے ہوئے باہر نہیں آئے گا ۔وہ سب کو فلم دیکھنے کیلئے پیغام دیتے ہوئے کہہ رہا ہوگا کہ اس فلم کو دیکھ لو اور سیکھ لو ”ورنہ‘۔