مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے جدید طریقوں کی ضرورت
اطہر مسعود وانی
صدر آزاد کشمیر محمد مسعود خان آزاد کشمیر کے برطانیہ مقیم افراد کی ” جموں و کشمیرسیلف ڈیٹر میشن موومنٹ یورپ” کی دعوت پہ ان دنوں برطانیہ کے چھ روزہ سرکاری دورے پہ ہیں۔23نومبر تک جاری اس دورے میں سٹاف کے دوافرادان کے ہمراہ ہیں اور اس دورے کے اخراجات گیارہ لاکھ آٹھ ہزار انچاس روپے ہیں جو ‘ کشمیر لبریشن سیل ‘ سے ادا کئے جائیں گے۔صدر آزاد کشمیر مسعود خان نے آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے لندن مقیم افراد کی ” کوئسٹ فار ایجوکیشن’ کے فنڈ ریزنگ ڈنر کی تقریب میں شرکت کی۔تقریب میں ڈانسر لڑکیوں نے حاضرین کے سامنے تیز آواز میں لگے مختلف گانوں پہ ڈانس پیش کئے۔سوشل میڈیا پہ تقریب میں شریک صدر آزاد کشمیر مسعود خان اور ڈانس کی تصاویر، وڈیو پر سخت تنقیدی جملے سامنے آئے۔یہ بھی کہا گیا کہ اسی رات ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میںچھ نوجوان شہید ہوئے اور ‘ایل او سی’ پہ ہندوستانی فوج کی فائرنگ سے آزاد کشمیر کے شہری شہید و زخمی ہو رہے ہیں ۔یہ بھی کہا گیا کہ منتظمین نے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ ‘ این جی او’ کے لئے پیسے اکٹھے کرنے کی اس تقریب میں ڈنر اور تفریح بھی شامل ہے۔پروگرام میں شریک صحافی شیراز خان نے بتایا کہ صدر مسعود خان تفریح کے طور پر پیش کئے جانے والا ڈانس شروع ہونے کے تھوڑی ہی دیر بعد تقریب سے چلے گئے۔
سوشل میڈیا پہ شائع ہونے والی وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس تقریب میں تیز ،بھدے اور غیر معیاری آواز والے میوزک پر چولی یا گھگرے( کالم نگار کی اس بارے میں معلومات ناقص ہیں) اور بلائوز میں ملبوس چار لڑکیاں ڈانس کر رہی ہیں ۔ان ڈانسر خواتین کو دیکھ کر افسوس ہوا کہ انسان کو پاپی پیٹ کے لئے کس عمر میں کیا کیا کرنا پڑتا ہے۔ایک ڈانسر تو بہت ہی موٹی تھی ۔ ان کی عمریں دیکھ کر یقینا تقریب میں شریک کئی افراد کا دل انہیں ”آپا جان ” یا ” بہن جی ” کہنے کو مچلا ہو گا۔25پائونڈ فی کس کا ٹکٹ خرید کر تقریب میں شریک پاکستان نژاد برطانوی معصوم شہریوں کو کیا معلوم تھا کہ ڈانسرز کا انتخاب بھی ” کسی بڑی عمر کے منتظم” نے ہی کیا تھا۔تاہم یہ زیادتی کی بات ہے کہ انتخاب کرنے والے منتظم نے حاضرین کے ذوق کے بجائے اپنے شوق کے مطابق ڈانسر لڑکیوں ، سوری خواتین کا انتخاب کیا۔
یقین کریں،مجھے تقریب کی وڈیو دیکھ کر بہت افسوس ہو١۔ اتنا غیر معیاری میوزک ،غیر معیاری گانے،غیر معیاری ڈانس۔تفریح کے اس آئٹم کے ان تینوں شعبوں کی پرفارمنس اتنی خراب تھی کہ اچھے میوزک ، خو بصورت گانوں اور اچھے ڈانس کے شو قین کو میوزک ، گانے اور ڈانس سے نفرت ہی نہیں الرجک بھی ہو جائے۔منتظمین نے 25پائونڈ کے ٹکٹ خرید کر شرکت کرنے والوں کے ساتھ ” ہینڈ” تو کیا ہی لیکن ساتھ ہی انہوں نے اس بات کا بھی کوئی احساس نہیں کیا کہ انہوں نے تقریب میں آزاد کشمیر کے صدر کو مدعو کیا ہوا ہے جو ایک سینئر سفارت کارت بھی ہیں۔اب معلوم نہیں کہ صدر آزاد کشمیر نے دیہی علاقوں کے نادار بچوں کو معیاری تعلیم دینے کے لئے چندہ جمع کرنے کی اس تقریب کے کتنے ٹکٹ خریدے۔ اگر تو یہ ٹکٹ بھی سرکاری پیسوں سے خریدے گئے ہیں تو ” ریاستی عوام ” کا تقریب کے منتظمین سے پر زور مطالبہ ہے کہ محترم صدر صاحب کے خریدے گئے ٹکٹ میں سے شرکت کے پیسے کاٹ کر باقی پیسے واپس کئے جائیں کیونکہ انہوںنے (اطلاعات کے مطابق) کھانا نہیں کھایا ، ہاں تھوڑا سا ڈانس دیکھنے پر حادثاتی طور پر مجبور ہو گئے ، اس لئے تھوڑا ساڈانس دیکھنے کے تھوڑے سے پیسے کاٹ لئے جائیں اور باقی واپس داخل خزانہ ( آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر) کرائے جائیں( معاملہ از حد ضروری تصور ہو)۔
یوں معلوم ہوتا ہے کہ منتظمین کو کمتر درجے کے تفریحی پروگرام کا ہی تجربہ ہے اورتفریحی پروگرام کا معیاری ہونا ان کے نزدیک غیر ضروری ہے ۔ تقریب میں شریک ایک دو انگریز حضرت و خاتون نے کیا سوچا ہو گا ہم نے ابھی تک اچھا میوزک پیش کرنا اور اچھا ناچنا بھی نہیں سیکھا ؟ افسوس ،اپنوں میں بھی بدنام کیا اورغیروں میں بھی۔بعض افراد بہت ظالم ہوتے ہیں کہ دوسرے کے گھر میں لگی آگ پہ اپنی اپنی ہانڈیاں پکانے کی فکر میں لگ جاتے ہیں ۔ ایسے ہی ایک صاحب نے دریافت کیا ہے کہ ڈانسرز کا ریٹ کیا ہے ، کس کس قومیت کی ڈانسرز دستیاب ہیں اور اگر انہیں کسی تقریب /محفل کے لئے پاکستان بلایا جائے تو ریٹ کتنا ہو گا ؟ اب مجھے معزز رقاص خواتین کے انتخاب کرنے والے محترم بزرگوار کے نام کا علم نہیں ورنہ سوالات کی بوچھاڑ کرنے والی معزز شخصیت کو ان کا نام اور ٹیلی فون نمبر ضرور دے دیتا۔ظالم نت نئی قسم کا ظلم کرنے کا سوچتا رہتاہے ، ایسے ہی ایک ظالم نے علاقائی غیرت کو نشانہ بناتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ ” ہنہ ، لندن کا مجر ا ، اس سے اچھا تو ہمارے ملک میں ہجڑوں کا کلچرل شو ہوتا ہے”۔
آئیے اب ذرا لندن میں رونما ہونے والی اس تقریب کے حالات و واقعات کا سیاسی حوالے سے جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔سیاست دار( دکاندار کے مصداق) اس بات پہ پریشان ہیں کہ لندن میں رقاصائوں نے ان سے اچھا ” مسئلہ کشمیر اجاگر ” کیا ہے۔ انہیں خطرہ نظر آنے لگا ہے کہ ان کی جگہ رقاصائوں کو ہی ” اجاگر ” کرنے کی ذمہ داری نہ سونپ دی جائے ۔ سیاست دان تو یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوں گے کہ ان کی تقاریر ، ملاقاتوں سے تو اتنا اثر نہیں پڑتا لیکن جب رقاصائیں مسئلہ کشمیر اجاگر کرتے ہوئے ” وفا جو نہ کی تو جفا بھی نہ کیجئے ، ستم جان من اس طرح بھی نہ کیجئے” ، نامی نغمے پہ جسمانی شاعری کریں گی تو مغرب کو توجہ دینا ہی پڑے گی۔ پھر مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے نام پہ بیچارہ سیاست دان کیا کرے گا ؟ پھر شاید سیاست دان یہ گاتے پھریں گے ” اک ستم اور میری جاں ابھی جاں باقی ہے ”۔ پھر تو مخلص اور جاں نثار سیاسی کارکنوں کو مطالبہ کرنا پڑے گا کہ مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کی جدوجہد کو موثر بنانے کیلئے سیاست دانوں کو رقص کی تربیت دی جائے ، پھر لگ پتہ جائے گا کہ سیاست دان اچھا مسئلہ کشمیر اجاگر کرتے ہیں یا رقاصائیں ! پھر شاید سیاست دانوں کو اپنے روائیتی جملے میں ترمیم کرتے ہوئے یہ اخباری بیان جاری کرنا پڑے کہ ” ہم نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سنگین مسئلہ دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کے لئے معنی خیز گانوں اور رقص کے جدید ذرائع کی صلاحیت حاصل کر لی گئی ہے ”۔
جیسا کہ پہلے کہا کہ ظالم کے ظلم کی کوئی حد نہیں ہوتی ،ایک ظالم کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر برطانوی نیشنلٹی رکھنے والی ڈانسر لڑکیوں کو مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کی ذمہ داری سونپ دی گئی تو اس سے آزا د کشمیر کے سیاستدانوں کا استحقاق مجروح ہوسکتا ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر اجاگر کرنا آزاد کشمیر کی بنیادی ذمہ داری ہے اور ہماری غیرت یہ گوارہ نہیں کر سکتی کہ ان کا ” ہوم ورک”(گھریلو ذمہ داری) کوئی اور ادا کرے۔اگر آزاد کشمیرکے سیاست دانوں سے بیرون ملک مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کی ذمہ داری واپس لے لی گئی تو پھر سیاستدانوں کو اس طرح کے نئے نغمے تحریر کرانے پڑیں گے ، جیسے ” مینوں ٹوٹی لوا دے بالما ، میری کچی سڑک پکی کر ا دے بالما ”، یا اگر پاکستان سے فنڈز ملنے میں تاخیر ہو تو بلا خوف و خطر وفاق کو کہا جا سکتا ہے کہ ” بتی بال کے بنیرے اتے رکھنی آں ، گلی پہل نہ جاوے چن میرا ” ۔اگر وفاق پھر بھی فنڈز دینے میں تاخیری حربوں سے کام سے تو دل کو بھلانے کو یہ گانا بھی گایا جا سکتا ہے کہ ” تمہیں عشق ہم سے نہیں نہ سہی ، ہمیں پیار تم سے ہے ہم کیا کریں ”۔
اطہر مسعود وانی