لیبیا میں اس جدید دور میں بھی لوگوں کو غلام بنائے جانے اور ان کی فروخت کا انکشاف ہوا ہے۔
لوگوں کی نیلامی کی بولی لگانے والے ایک شخص نے چہرہ چھپانے کی شرط پر لوگوں کی بولیاں لگاتے ہوئے فلم بندی کے لئے رضا مندی کا اظہار کیا۔
جس کے بعد وہ غلام بنائے گئے افراد کی بولیاں لگاتا رہا جس پر خریدار غلام کی صحت کے مطابق اس کی بولی پر ہاتھ اٹھاتے رہے۔
ایک غلام کی کم سے کم قیمت 500 ڈالر تھی جب کہ 550، 600 اور 650 ڈالر تک غلاموں کی بولیاں لگائی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق غلاموں کی خرید و فروخت ملک کے مختلف شہروں میں ہورہی ہے جس میں زووارا، گریان، الرجبان، کبہ الزنتان سمیت دیگر شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ہر سال لیبیا کی سرحد عبور کر کے ہزاروں افراد شاندار مستقبل بنانے کے لئے یورپ کا رخ کرتے ہیں اور انہی لوگوں کو غلام بنا لیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پناہ گزینوں کو غلام بنانے اور ان کی فروخت کے معاملے کے شواہد لیبیائی حکام کے حوالے کردیے گئے ہیں جب کہ طرابلس حکام نے شفاف تحقیقات کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔
دوسری جانب غیرقانونی امیگریشن کی روک تھام کے لئے بنائے جانے والے ادارے کے فرسٹ لیفٹیننٹ ناصر حازم نے تسلیم کیا ہے کہ ملک میں انسانی اسمگلرز کے مختلف گروہ کام کر رہے ہیں۔