ذکرُ اللہ کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا اور اس کی پابندی کرنا مشکل نہیں
* * * *اسامہ الطاف۔جدہ* * * *
امام حسن بصری ؒ ایک مرتبہ اپنی مجلس میں تشریف فرما تھے۔ایک شخص آیا اور حسن بصریؒسے خشک سالی کی شکایت کی۔حسن بصریؒ نے اس شخص کو استغفار کی تلقین کی۔ کچھ دیر بعد دوسرا شخص آیا ۔اس نے امام صاحب ؒ سے بے اولادی کی شکایت کی ۔آپؒنے اس کو استغفار کی تلقین کی۔کچھ دیر بعد ایک اور شخص آیا۔اس نے امام صاحبؒسے فقر و فاقہ اور تنگ دستی کی شکایت کی۔حضرت حسن بصری ؒ نے اس کو بھی استغفار کی تلقین کی۔
حاضرینِ مجلس میں سے کسی نے امام صاحب سے اظہار تعجب کیا،کہ 3 مختلف اشخاص نے مختلف مسائل بیان کیے اور آپ نے ایک ہی حل بتلایا۔امام حسن بصریؒ نے فرمایا:’’کیا تم نے قرآن پاک کی آیات نہیں پڑھی:
چنانچہ میں نے ان سے کہا(حضرت نوح نے اپنی قوم سے)کہ اپنے پروردگار سے مغفرت مانگو،یقین جانو وہ بہت بخشنے والا ہے،وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا،اور تمہارے مال اور اولاد میں ترقی دے گا،اور تمہارے خاطر نہریں مہیا کردیگا۔ (12-10 نوح)۔
ان آیات میں بیان کیے گئے فضائل پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ استغفار میں دنیا اور آخرت کے بڑے مسائل کا حل ہے چنانچہ مغفرت ہر صاحب ایمان کا مطلبِ اکبر ہے،اور مذکورہ دنیوی فوائد (خوشحالی اور رزق کی فروانی)انسانی ضروریات میں سرفہرست ہے ،اور یہ فضائل صرف استغفار تک ہی محدود نہیں ،استغفار ذکرُ اللہ کی ایک قسم ہے اور ذکرُ اللہ بالعموم انتہائی با فضیلت عمل ہے۔
مختلف روایات میں مختلف اذکار کے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔مثال کے طور پر” سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم “کو زبان پر ہلکا اور ترازو میں وزنی قرار دیا۔دوسری روایت میں “الحمدللہ” کومیزان (ترازو) بھرنے والااوـر” سبحان اللہ و الحمدللہ” کوآسمان و زمین کی درمیانی خلا کو (نیکیوں سے) پُر کرنے والا بتلایا۔
الغرض ذکر اللہ کے فضائل بہت زیادہ ہیں اور عملًا ذکر اللہ بہت آسان ہے۔انسان ہرحالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرسکتا ہے،اس کیلئے وضو کی شرط ہے اور نہ اس میں کوئی جسمانی مشقت ہے جبکہ اجر و ثواب بہت زیادہ ہے۔ذکرُ اللہ کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا اور اس کی پابندی کرنا مشکل نہیں۔ابتداء کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے ساتھ تسبیح رکھیں،تسبیح ہاتھ میں رکھنے سے زبان بے ساختہ ذکر میں مشغول ہوجاتی ہے۔فراغت کے اوقات،انتظار کی گھڑیاں ،ڈرائیونگ کے دوران ایسے اوقات ہے جن کو ذکر کے ذریعے قیمتی بنایا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ ذکرُ اللہ کاایک اہم پہلو صبح و شام کے اذکار ہیں۔ان کا اہتمام انتہائی مفید ہے۔دن کے شروع میں اللہ تعالیٰ کا ذکر دن کے تمام کاموں کو آسان کردیتا ہے اور شام کے اذکار رات کے شرور اور فتن سے حفاظت کا ذریعہ ہیں۔ابتداء میں ان اذکار کے اہتمام کیلئے حصن المسلم و غیرہ کتب کی ضرورت ہوتی ہے،بعد ازاں یہ آسان اذکار یاد ہوجاتے ہیں اور ان کو پڑھنے میں دقت نہیں ہوتی۔فجر کی نماز کے بعد مسجد میں یا صبح کام پر جاتے ہوئے گاڑی میں ان اذکار کا اہتمام کرلیا جائے اور ان اذکار کو اپنا معمول بنالیاجائے تو آدمی روحانی قلعہ میں شیاطین، انس و جن کے شرور اور مختلف بیماریوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔یہ عام ذکر کرنے کے نسخے ہیں جن کے ذریعے ذکر سے رطب اللسان (زبان تر)ہونے کا راستہ آسان ہوجاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کا دھیان یکسوئی کے ساتھ دنیا و مافیہا کے مشاغل سے دورہوکر اللہ کا ذکر کرنے سے حاصل ہوتا ہے،اگر اس عمل کی توفیق ہوجائے تو بہت اچھا ہے،ورنہ کم از کم عام ذکر سے محرومی نہ ہو۔