سکیورٹی اداروں میں رابطوں کا فقدان تھا ،پولیس کی مدد بھی نہیں کی گئی
20دن سے جاری دھرنے کو سکیورٹی فراہم کرتے ہوئے اہلکار تھک چکے تھے
آپریشن میں ساڑھے 5 ہزار کے لگ بھگ پولیس اہلکاروں نے حصہ لیا
دھرنے کی جگہ کشادہ ہونے کی وجہ سے آنسو گیس کے شیل بھی مظاہرین پر اثر انداز نہیں ہوسکے
ایف سی،پولیس اوررینجرز کی تعیناتی نے کام پر برا اثر ڈالا،اہلکاروں کومظاہرین کی جانب سے تقریروں کے ذریعے گمراہ کیا جارہا تھا
الیکٹرانک میڈیا کی جانب سے کی گئی لائیو کوریج کی وجہ سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے قریبی علاقوں سے مزید مظاہرین جمع ہوگئے تھے
آپریشن کے دوران 173 حکام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران زخمی ہوئے تھے
کسی اہلکار کو بندوق نہ دیئے جانے کی وجہ سے کسی بھی حکومتی ملازم یا عام شہری ہلاکت نہیں ہوئی
آپریشن میں آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا گیا،مظاہرین مزاحمت میں عوام اور پولیس کی کئی گاڑیوں کو نذر آتش بھی کیا
مظاہرین نے پولیس پر ڈنڈوں، کلہاڑیوں اور پتھروں سے جوابی وار کیا ، پولیس فورس پر آنسو گیس کے شیل بھی پھینکے گئے
سکیورٹی اہلکاروں نے 4 گھنٹوں کی محنت کے بعد 80 فیصد علاقہ خالی کرالیا تھا ،تحریک کے مزید کارکنان نے فورسز پر حملے شروع کیے
پولیس نے 8 نومبر سے 25 نومبر تک 418 مظاہرین کے خلاف 27 کیسز کو درج کیا جنہیں جوڈیشل حراست میں بھیج دیا گیا تھا
آئی جی اسلام آبادخالد خٹک کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں تفصیلات
فیض آباد انٹرچینج پر دھرنامظاہرین کے خلاف آپریشن کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی جس میں اسلام آباد پولیس نے اہلکاروں کی تھکاوٹ کو آپریشن کی ناکامی کا سبب قرار دیا،سکیورٹی اداروں میں رابطوں کا فقدان تھا اور پولیس کی مدد بھی نہیں کی گئی،20 دن سے جاری دھرنے کو سکیورٹی فراہم کرتے ہوئے سکیورٹی اہلکار تھک چکے تھے جس کے باعث فیض آباد انٹرچینج پر ہونے والے آپریشن میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا،آپریشن میں ساڑھے 5ہزار کے لگ بھگ پولیس اہلکاروں نے حصہ لیا،دھرنے کی جگہ کشادہ ہونے کی وجہ سے آنسو گیس کے شیل بھی مظاہرین پر اثر انداز نہیں ہوسکے۔پولیس رپورٹ اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی)خالد خٹک کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی۔پولیس رپورٹ کے مطابق مختلف علاقوں کے سکیورٹی اہلکار جن میں فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی)،پولیس، اور پاکستان رینجرز کی تعیناتی نے کام پر برا اثر ڈالا تھا جبکہ تعینات کیے گئے اہلکاروں کو مظاہرین کی جانب سے اپنی تقریروں کے ذریعے گمراہ بھی کیا جارہا تھا جس کی وجہ سے فورسز کے استعمال میں مشکلات پیش آئیں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ مظاہرین آپریشن کے لیے پہلے سے تیار تھے اور انہوں نے دھرنے کے مقام کے قریب ان تمام سکیورٹی کیمروں کے تار کاٹ دیئے تھے جن کے ذریعے ان کی نقل و حمل پر نظر رکھی جارہی تھی۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان کے پاس پستول، پتھر، کلہاڑی، لوہے کے راڈ، آنسو گیس اور اس بچنے کے لیے ماسک بھی موجود تھے جبکہ مذہبی طور پر ان مظاہرین کے جذبات کو ابھارتے ہوئے بہت حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔رپورٹ میں آپریشن کے دوران الیکٹرانک میڈیا کی جانب سے کی گئی لائیو کوریج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے قریبی علاقوں سے مزید مظاہرین جمع ہوگئے تھے۔آپریشن کے دوران 173حکام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران زخمی ہوئے تھے تاہم کسی اہلکار کو بندوق نہ دیئے جانے کی وجہ سے کسی بھی حکومتی ملازم یا عام شہری ہلاکت نہیں ہوئی۔پولیس کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ مظاہرین کھلے علاقے میں بیٹھے تھے جس کی وجہ سے ان پر آنسو گیس اثر نہیں کر سکی۔سکیورٹی پلان کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ 5ہزار 5سو 8اہلکاروں کو فسادات سے بچنے کے لیے تمام سامان فراہم کرکے فیض آباد انٹر چینج پر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ 25 نومبر کو ہونے والے آپریشن کے آغاز میں آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا گیا لیکن مظاہرین کی جانب سے مزاحمت کی گئی اور انہوں نے پولیس پر ڈنڈوں، کلہاڑیوں اور پتھروں سے جوابی وار کیا جبکہ پولیس فورس پر آنسو گیس کے شیل بھی پھینکے گئے۔رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سکیورٹی اہلکاروں نے 4 گھنٹوں کی محنت کے بعد 80 فیصد علاقہ خالی کرالیا تھا لیکن اسی دوران راولپنڈی کے قریبی علاقوں سے تحریک لبیک پاکستان کے مزید کارکنان بھی پہنچ گئے تھے جس کے بعد انہوں نے فورسز پر حملے شروع کیے جس کے نتیجے میں متعدد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار زخمی ہوئے تھے جنہیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا۔دھرنے کی وجہ سے قوم کو ہونے والے نقصان کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ مظاہرین نے عوام اور پولیس کی کئی گاڑیوں کو نظر آتش بھی کیا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ پولیس نے 8 نومبر سے 25 نومبر تک 418 مظاہرین کے خلاف 27 کیسز کو درج کیا جنہیں تحقیقات کے بعد جوڈیشل حراست میں بھیج دیا گیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کے مطابق اسلام آباد پولیس اورضلعی انتظامیہ نے مظاہرین کو ڈیموکریسی پارک منتقل کرنے کے لیے تمام تر وسائل کو بروئے کار لائے گئے تھے جبکہ دیگر صوبوں اور ریجرز اہلکاروں کو بھی طلب کرکے مخصوص مقامات پر تعینات کیا گیا۔پولیس نے دعویٰ کیا کہ سکیورٹی اداروں کی جانب سے آپریشن کو پورے منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا تھا تاہم مظاہرین کی جانب سے شدید مزاحمت اور تحریک کے مزید کارکنان کی اسلام آباد اور راولپنڈی کے قریبی علاقوں سے آمد کی وجہ سے اسے معطل کرنا پڑا تھا تاکہ کسی قسم کا جانی نقصان نہ ہو لیکن جب ملک بھر میں دھرنوں کے آغاز کی اطلاعات موصول ہوئیں تو آپریشن کو مکمل طور پر بند کرنا پڑا تھا۔واضح رہے کہ 23 نومبر کو گزشتہ سماعت کے دوران عدالتِ عظمی نے از خود نوٹس جاری کرتے ہوئے حکام سے فیض آباد دھرنے اور ٹریفک جام کی صورتحال پر رپورٹ طلب کی تھی۔