از: سیّد زاہد حسین نعیمی
پس منظر:
حضرت محمدۖکے اعلان نبوت سے پہلے مشرکین عرب اپنی امانتیں آپکے پاس رکھتے۔ مشرکین عرب اور سرداران قریش میں آپ صادق و آمین مشہور تھے، لیکن اعلان نبوت کے بعد آپکے مخالف ہو گئے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ پہنچ گے، کفار عداوت میں جل بھن گئے۔ کفار و مشرکین کی اس آتش عداوت نے انہیں مجبور کیا کہ وہ مدینہ منورہ پر حملہ کر کے حضرت محمدۖ اور انکے جان نثار صحابہ کا قصہ تمام کر دیں۔ (تاریخ اسلا م صفحہ 28 )
اسباب:۔
حضرت محمدۖاور آپکے صحابہ کرام مشرکین مکّہ کی عداوت، حرکات و سکنات سے باخبر تھے اسلئے وہ بھی حفاظتی تدابیر کر رہے تھے۔ معرکہ حق وباطل کے اگرچہ اسباب اور بھی ہیں، لیکن خاص طور کفار و مشرکین کو تجارتی سفر سے باز رکھنا تھا جو اُنکی معاشی مضبوطی کا باعث تھا، ایک اندازے کے مطابق اُنکے تجارتی قافلے جو شام تک سفر کرتے تھے، دوہری تجارت سے دگنا منافع کماتے تھے۔ یہ اُنکی معاشی زندگی اور خوشحالی کیلئے بڑا اہم تھا، اسی غرور اور گھمنڈ میں وہ مسلمانوں پر حملہ کرکے انہیں ختم کرنیکی دھمکیاں دیتے تھے۔ چنانچہ ان قافلوں کی رکاوٹ کیلئے رسول اللہۖ نے حکمت عملی طے کی یہ قافلے مدینہ منورہ سے ہو کر شام جاتے تھے۔ ان قافلوں کے تعاقب پر حضرت عبداللہ کے تیر سے کفار کا ایک شخص عمرو حضرمی ہلاک ہو گیا اور دو کو گرفتار کر دیا گیا۔ مقام نخلہ کے اس واقع سے مشرکین مکّہ کے آتش انتقام میں شدت آئی۔ حضورۖ نے ان قافلوں پر مجاہدین اسلام کو نظر رکھنے کا حکم دیا۔ ابو سفیان جو شام سے مکّہ مکرّمہ سامان تجارت لیکر آ رہا تھا۔ اُسکے تعاقب کیلئے مجاہدین اسلام نکلے۔ ابوسفیان کے بارے میں یہ افواہ عام ہو گی کہ مسلمانوں نے اُسکے قافلے کو لوٹنے کی تیاری کر دی ہیں، اسلئے اہل مکّہ مدینہ منورہ پر حملہ کی غرض سے نکل کھڑے ہوئے۔ (تاریخ اسلام صفحہ (3) ضیاء النبی جلد سوئم، صفحہ 294، سیرت رسول عربی صفحہ 135-36)
بنیادی سبب خفرمی کا قتل تھا، لیکن ضمضم بن عمر جسکو ابو سفیان نے اہل مکّہ کے پاس بھیجا تھا اُس نے اہل قریش کو ابو سفیان کیلئے فریاد کی۔ چنانچہ کفار مکّہ مسلمانوں کیساتھ جنگ کیلئے تیار ہو گے۔ (سیرت رسول عربی صفحہ 135)
جنگ کی تیاری اور روانگی:۔
کفار حضرت محمدۖ کیساتھ جنگ کرنے کیلئے تیار ہو کر روانہ ہوئے، گانے والی عورتیں بھی اپنے ساتھ رکھیں۔ امرائے قریش عباس، عتبہ، ربیعہ، حارث بن عامر، نفربن حارث ، ابوجہل امیہ وغیرہ باری باری ہر روز دس دس اونٹ ذبح کرتے اور لوگوں کو کھلاتے تھے۔ عتبہ بن ربیعہ جو قریش کا سب سے معزز رئیس تھا، فوج کا سپہ سالار تھا ، (سیرت رسول عربی صفحہ 135)۔ ابو سفیان بچ بچا کر اپنے قافلے کو بحفاظت مکّہ لے آیا۔ اس پر بعض سرداروں نے واپسی کا ارادہ کیا لیکن ابو جہل انکار ہو گیا اور وہ لڑائی پر مصر رہا، وہ اپنی فوج کو لیکرمقام بدر کی طرف بڑھا۔ (تاریخ اسلام صفحہ 31)
رسول اللہۖ کی تیاری:۔
اگرچہ حضورۖ کا مقصد بالکل جنگ نہ تھا، لیکن جب کفار مکّہ نے حتمی فیصلہ کر لیا کہ مسلمانوں سے ہر حال میں جنگ کرنا ہے۔ تو رسول اللہۖ نے بھی جوابًا جنگ کی تیاری کیلئے صحابہ کرام سے مشورہ کر کے اسے حتمی شکل دیدی۔ (سیرت رسول عربی صفحہ 137)
ہجرت سے انیس ماہ بعد رمضان المبارک کی بارہ تاریخ بروز ہفتہ حضور علیہ السلام اپنے تین سو پندرہ جانثاروں کے ہمراہ مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے۔ مسلمان لشکر کے پاس سواری کیلئے ایک گھوڑا اور اسی اونٹ تھے، باقی مجاہدین یا سپاہی تھے۔ نبی کریمۖ نے تین صحا بہ کیلئے ایک ایک اونٹ مقرر کر دیا جس پر وہ باری باری سوار ہونگے۔ حضور علیہ السلام نے اپنے اونٹ کیلئے بھی تین آدمی تجویز فرمائے خود حضرت علی المرتضیٰ اور ابوالبابہ۔ (ضیا ء النبی جلد سوم صفحہ 295)
میدان بدر:۔
بدر ایک مشہور پانی کی جگہ اور ایک بستی تھی یہ جگہ مکّہ اور مدینہ کے درمیان واقع تھی اور مدینہ منورہ سے چار مرحلہ دور تھی۔ (شرح مسلم شریف جلد خامس صفحہ 468)
حضرت محمدۖ کو خبر ملی تو آپ تین سو سے کچھ اوپر جانثار وں کو لیکر مدینہ سے نکلے، قریش نے وہاں پہنچ کر اُن مقامات پر قبضہ کر لیا جو جنگی نقطہ نظر سے زیادہ اہم تھے، مسلمانوں نے بھی ایک چشمہ پر قبضہ کر کے مناسب جگہ بنالی، بارش ہو جانے سے مٹی بیٹھ گئی اور کچھ مزید پانی بھی جمع ہو گیا فوج کو ترتیب دیکر آنحضرتۖ نے دعا فرمائی۔
”خدایا تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اُسے پورا کر۔ اگر آج تیرے یہ چند بندے مٹ گے تو پھر قیامت تک تیرا کوئی نام لیوا نہیں رہے گا”۔ (تاریخ اسلام صفحہ 32)
معرکہ حق و باطل:۔
غزوہ بدر معرکہ حق و باطل ہے اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ السلام سے اسکا وعدہ فرمایا، چنانچہ اس دن یوم کو الفرقان بھی کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، ترجمہ: بیشک مدد کی تھی تمہاری اللہ تعالیٰ نے (میدان) بدر میں حالانکہ تم بالکل کمزور تھے (آلعمران :123)
صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے۔ ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے کہا غزوہ بدر کے دن رسول اللہۖ نے مشرکین کی طرف دیکھا تو وہ ایک ہزار تھے اور آپکے ساتھ تین سو انیس مرد تھے۔ رسول اللہۖ نے قبلہ کی طرف منہ کیا اور ہاتھ اٹھا کر بآواز بلند اپنے رب سے دعا کی ”اے اللہ تو نے مجھ سے جووعدکیا ہے اُسکو پورا فرما، اے اللہ تو نے مجھ سے جس چیز کا وعدہ کیا وہ عطا فرما۔ اے اللہ اگر اہل ایمان کی یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو پھر روے زمین پر تیری عبادت نہیں کی جائیگی”۔ آپ ہاتھ پھیلا کر بآواز بلند مسلسل دعا کرتے رہے حتیٰ کہ آپکے شانوں سے چادر گر گئی۔ (مسلم شریف حدیث نمبر 4473)
حق و باطل میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی کی مدد ایک ہزار فرشتوں سے کی۔ اس دن مسلمانوں نے ستر مشرکوں کو قتل کیا اور ستر کو گرفتار لیا۔ (ایضاً صفحہ 467)
ایسی ہی روایات بخاری شریف میں بھی ہیں۔
معرکہ حق و باطل غزوہ بدر میں اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدۖ اور انکے صحابہ کرام کو فتح و نصرت عطا فرمائی، حق کا غلبہ ہوا اور باطل نیست و نابود ہوا۔ کفار کی تعداد مسلمانوں سے تین گنا زیادہ تھی۔ اس جنگ میں بھائی بھائی کیخلاف اور باپ بیٹے کے خلاف لڑ رہا تھا۔ کفار کے ستر آدمی مارے گئے، ابو جہل، عتبہ جیسے سردار بھی ان میں شامل تھے۔ اسلامی فوج کے چودہ مجاہد شہید ہوئے۔ (تاریخ اسلام صفحہ 32)
اللہ تعالیٰ کی مدد اور رسول اللہۖ کی جنگی حکمت عملی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح و نصرت عطا فرمائی۔ مسلمانوں کا نظم و ضبط اطاعت، امیر بے فکری، جذبہ شہادت اور سب سے بڑھ کر محبت رسول نے مسلمانوں کو فتح و نصرت سے ہمکنار کیا۔ حضور علیہ السلام نے بدر کے میدان میں مشرکین کے قتل ہونیکی جگہ کی پہلے ہی نشاندی کر دی تھی کہ فلاں کافر فلاں جگہ مرے گا۔ (شواہد النبوة صفحہ 124)
مسلمان اگر آج بھی غزوہ بدر جیسا جذبہ پیدا کر لیں تو فتح و نصرت انکے قدم چومے گی۔
رابطہ نمبر: 03465216458
ای میل: szahidnaeemi@gmail.com