اُم مزمل۔جدہ
وہ نیلی آنکھوں سے دور رہنا چاہتی تھی۔وہ اپنی نیلی آنکھیں چاروں طرف گھما گھما کر ہر ایک سے ہفتے بھر کی رپورٹ لے رہا تھا۔ سب سے بڑے عہدے والے نے اپنی کارکردگی بتاتے ہوے کہا” سر آپ با لکل فکر نہ کریں۔جو جو مسائل ہم نے سو سال کی سوچ بچار کے بعد ان کے لئے پیدا کئے ہیں،ممکن نہیں کہ ایسے مسائل پر یہ اتنی آسانی سے قابو پالیں۔ وہ اپنی گھر والی کی طرف متوجہ ہوا اور رعب سے پوچھنے لگا،ہاں بھئی تم لوگوں نے کتنی مرتبہ ہمیں ہرایا ہے؟تم لوگوں نے کبھی آمنے سامنے کی لڑائی ہمارے ساتھ لڑی ہی نہیں۔
وہ جانے انجانے میں سچ بول گئی۔وہ آگ بگولا ہو گیا ۔نیلی آنکھیں سرخی مائل ہو گئیں تیز لہجے میں کہا” تمہارا خاندان کا خاندان ختم ہو گیا۔ایک تم لاوارث کی طرح رہ گئی تھیں جسے میں نے اپنا نام دیا، معاشرے میں مقام دیا۔ کیا ہوا جو کبھی کبھار میں تمہیں اپنی ٹیم کی سپر ویژن کے لئے روانہ کردیا کرتا ہوں۔کیا ہمارے آباءو اجداد کی بزدلی یاد دلانا ابھی ضروری تھا کہ ہم نے کبھی سامنے سے مقابلہ کیا نہیں لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارے جیسا ذہین کہیں موجود نہیں؟
وہ سر کی جنبش سے جواب ہاں میں دے رہی تھی لیکن دل میں خوب جانتی تھی کہ ادھورے سچ سے دنیا کو مسحور کر رہے ہو لیکن جہاں ذہانت کا ذکر کرتے ہوتو اس خدادادصلاحیات پر تکبر بھی کرتے ہو۔ کبھی اپنی بزدلی کی داستان بھی تو سنایا کرو۔
وہ سب کو حکم دے رہا تھاکہ امسال یہ پراجیکٹ صد فیصد مکمل ہونا چاہئے۔ وہاں موجود سب نے ہی اس کی تائید کی لیکن سب سے بڑی عمر والے نے اپنامدعا بیان کیا اورکہاکہ بہت برکتوں والا مہینہ ہے۔ اتنی فضیلت ہر ہر لمحے کس ماہ میں ملتی ہے۔اتنی آسانی سے یہ لوگ اپنا قیمتی وقت ایک فضول پروگرام میں شرکت کے لئے نہیں نکالیں گے۔ اس کے لئے آپ اپنا بجٹ کم از کم سو گنا بڑھائیں تبھی ہمارے پھینکے ہوے جال میں یہ لوگ آسکیں گے۔دوسرے نے کہا کہ اطمینان رکھیں۔کئی سال ہم نے انہیں ایسے ایسے دلکش پیکج اور قیمتی تحائف اس لئے ہی تو دئیے ہیں لیکن نیلی آنکھیں سنجیدگی سے سوال پوچھ رہی تھیں۔ آپ بجٹ میں اور جتنا اضافہ چاہتے ہیں،اس کی فکر ہرگز نہ کریں۔اس اہم ہدف کو پورا کرنے میں تمام وسائل بروئے کار لائیں اور آکر ہمیں خوشخبری سنائیں اور آپ کو معلوم ہی ہے کہ انہیں پہلے ہی سے خبردار کر دیا گیا ہے۔ انکے آگے پیچھے اور دائیں بائیں سے بہکایا پھسلایا جا ئے گا۔اس تنبیہ کے باوجود وہ یوں نادان بنے ہوے ہیں تو بھلا کسی اور کو اپنی نااہلی کا ذمہ دار کیونکر ٹھہرا سکتے ہیں۔کبھی توفیق تو انہیں ہوتی نہیں کہ دل لگا کر اس کتاب کو سمجھیں کہ آخر اس میں کن کن احکام کو بجا لانے کا حکم فرمایا گیا ہے اور کن کن باتوں سے روکا گیا ہے۔ ساری زندگی سیکڑوں کتابیں پڑھتے ہیں لیکن وہی نہیں پڑھتے جس کا مطالعہ سب سے اہم ہے کہ اس کاحق ہے کہ اس کو سمجھیں اور اپنی قبر میں آگ سے بچنے کے لئے اس کلام کو اپنا دن رات کا ساتھی بنا لیں۔
ایک اور نے کہا کہ کوئی سوال پوچھے بغیر اتنے تحائف دینے کی کیا ضرورت ہے ۔جن کا سوال درست ہو انہیں ہی اتنا قیمتی سامان ملنا چاہئے۔ عمر رسیدہ نے عقل کی بات دہرائی اور کہاکہ تم جانتے تو ہو اس ماہ کی فضیلت کہ ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا جانا چاہئے ۔ایسے میں جو گھر بیٹھے پروگرام دیکھ رہے ہیں، وہ جب یہ دیکھیں گے کہ بس وہاں پہنچے نہیں کہ خوش آمدیدی قیمتی تحائف کی لائن لگا دی جاتی ہے ۔کسی کو سوال بھی ایسے آسان ملتے ہیں۔کچھ مشکل نہیں بس اصل شرط وہاں پہنچ جانا ہے پھر قسمت یوں مہربان ہو جائے گی کہ دونوں ہاتھوں سے سامان سمیٹو مفت کی دعوت انجوائے کرو اور مزے مزے سے اپنے تمام ملنے والوں کو آن ایئریہ شوق پورا کرنے کی دعوت دے دو ۔ سمجھو جس کام کو ہم ان سے اتنی آسانی سے نہ کراسکے، وہ کام ہم انکے اپنوں سے ہی کر والیں گے۔نیلی آنکھوں نے اپروو کردیا۔ اب عین سحر و افطار کے اہم اوقات کو لغویات میں ضائع کرکے آخرت کی برکت چھیننے کا اہتمام بڑی ذہانت سے کر لیا گیا تھا ۔
وہ بچپن سے یہ بات جانتی تھی کہ ہمارا رب ہماری ہر بات جانتا ہے۔ خلوص دل سے مانگی جانے والی دعا کبھی رد نہیں ہوتی۔ ہروقت باوضو رہنا،پانچوں وقت نماز کی تیاری کے ساتھ اذان کا انتظار کرنا، اذان کا جواب دینا، اذان مکمل ہونے کے بعد کی مسنون دعا پڑھنا، دعا مانگنا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اذان اور اقامت کے درمیان دعا کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے اس لئے اس وقت دنیا و آخرت کی عافیت مانگنی چاہئے۔ تسبیح ، تہلیل اپنے اوپر لازم کرلینا، یہ وہ کام ہیں جن کے لئے نہ توبہت ذہانت کی ضرورت ہے، نہ ہی مال و مشقت کی۔ ’صرف ایک” سوچ” ہے کہ ہم جس کام کے لئے اس دنیا میں آئے ہیں وہ آسانی سے انجام دیتے چلے جائیں اور اس سے لاپر وائی نہ برتیں۔ رمضان کریم میں جہاں عبادات کی رونق پہلے سے زیادہ ہو جاتی ہے وہیں عید کی تیاری رمضان مبارک سے پہلے ہی کرلینا مناسب ہوتا ہے۔ وہ اپنی تیاری کر چکی تھی۔
وہ عصر کی نماز کے بعد تلاوت میں مشغول تھی کہ چوتھی جماعت کی طالبہ چار گھروں کی چابی یہ کہہ کر دے گئی کہ ابو یا چاچاکام سے واپس آئیں تو انہیں دے دیں، ہم لوگ پروگرام میں جارہے ہیں ۔سحری پروگرام کے بعد گھر آئیں گے۔ وہ اتنے شوخ کپڑوں میں میک اپ سے لال کیا چہرہ حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں وہ بچی جلدی جلدی بتانے لگی کہ ہم لوگ فلاں بھائی کے آفس کی کوسٹر میں جائیں گے۔یہ کہہ کر وہ تیزی سے دروازے کی طرف مڑ گئی ۔اسکی چوڑیاں اور پازیب بھی کھنکیں ۔ وہ چونک گئی ۔اس کے ذہن میں خبروں کی ہیڈلائنز چلنے لگیں اور وہ بے چین ہوگئی اور اٹھ کرایسے دوڑی کہ شاید انہیں روک ہی لے گی کہ اس کا جان لیوا قہقہہ اس تک پہنچا اور وہ بے جان سی ہوکر وہیں بیٹھ گئی۔نیلی آنکھوں والے کی ذہانت میں کوئی شبہ نہیں تھا۔ وہ اسکی سوچ بھی جان چکا تھا اسی لئے طنز کر رہا تھا۔بھئی وہ تو دوسری قوم کے فرد کی شرارت تھی کہ اس کو سزا دلانے کے لئے آواز دی گئی اور فقط ایک عورت کی پکار پر اس وقت کے حکمران نے لشکر کشی کی تھی۔ اب اپنی ہی ریاست میں داد رسی کے لئے کسے پکارا جائے گا۔ وہ اپنے لوگوں کی کم عقلی پر پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔
٭٭جاننا چاہئے کہ دین سے دوری تمام مسائل کی جڑ ہے۔