اطہر مسعود وانی
یکم جون کوآزاد کشمیر اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں آزاد کشمیر کے عبوری آئین 1974ء میں13ویں ترمیم کی منظوری دی گئی اور اس کے ساتھ ہی آزاد کشمیر کا عبوری آئین 13ویں ترمیم کے ساتھ نافذ العمل ہو گیا ہے۔اس سے ایک دن قبل پاکستان کی وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آزاد کشمیر کے عبوری آئین1974ء کی 13ویں ترمیم کی منظوری دی گئی۔یوں31مئی2018اوریکم جون2018 آزاد کشمیر کی آئینی تاریخ میں شاندار اقدامات کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔بلا شبہ اس تاریخ ساز اقدام کا سہرا وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان اور آزاد کشمیر کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری (جنرل)فرحت علی میر کے سر ہے۔راجہ فاروق حیدر خان آزاد کشمیر کے پہلے حکمران ہیں جنہوں نے آزاد کشمیرحکومت کو انتظامی، مالیاتی اور قانون سازی کے حوالے سے با اختیار بنانے کا ناممکن نظر آنے والامشکل ترین ہدف ، بیرون و اندرون آزاد کشمیرکی مختلف مخالفتوں کے باوجود ، حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان آئینی ترامیم کے حصول کے لئے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان اور ان کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔ آزاد کشمیر کے وسیع تر مفاد میں حاصل کردہ ان مقامی حقوق کے حصول کے آزاد کشمیر کی سیاست پر بھی گہرے اثرات نمایاں ہوں گے۔آزاد کشمیر میں آئینی ترامیم کی ضرورت کیوں محسوس کی جاتی رہی، اس سلسلے میں کیا کیا کوششیں کی گئیں اور 13ویں ترمیم سے آزاد کشمیر کو دوررس نوعیت کے کیا کیا فوائد حاصل ہوئے ہیں، ان امور کا ایک جائزہ پیش خدمت ہے۔
24اکتوبر1947ء کو آزاد حکومت کے قیام کے حوالے سے اعلان آزادی جاری ہوا ۔تقسیم برصغیر سے کچھ ہی پہلے سرینگر میں منظور شدہ قرار داد الحاق پاکستان کو کشمیریوں کی امنگوں کی ترجمانی کی حیثیت حاصل ہے جس میں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ بطور ایک ریاست خصوصی حیثیت میں الحاق کی بات کی گئی ہے جس میںدفاع ،امور خارجہ اور کرنسی کے علاوہ ریاست اپنے تمام اندرونی معاملات میں خود مختار حیثیت کی حامل ہو گی۔پاکستان کے آئین1973ء میں کشمیر سے متعلق واحد آرٹیکل میں یہی طے کیا گیا ہے کہ جب کشمیری پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کریں گے تو اس حوالے سے پاکستان کو کشمیریوں کی ہر شرط منظور ہو گی۔ کشمیر میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ بندی کے بعد 28اپریل1949کے معاہدہ کراچی تک آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیرکا( تمام ریاست جموں و کشمیر کی نمائندہ حکومت) درجہ قائم رہا۔حکومت پاکستان کی طرف سے معاہدہ کراچی کے ذریعے آزاد حکومت کا کردار مقامی امور تک محدود کر دیا گیا۔یاد رہے کہ 27جولائی 1949کو کراچی میں UNCIPکے ساتھ پاکستان اور ہندوستان نے کشمیر میں جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کئے۔یعنی جنگ بندی سے تقریبا تین ماہ پہلے آزاد حکومت کا تحریک آزاد ی کی نمائندہ حکومت کا کردار ختم کر دیا گیا۔معاہدہ کراچی میںاس وقت کی واحد سیاسی جماعت مسلم کانفرنس کے ذریعے تحریک آزادی سے متعلق آزاد کشمیر کے سیاسی کردار کو تسلیم کیا گیا( تاہم آزاد کشمیر کے کسی بھی آئین میں آزاد کشمیر کے تحریک آزادی سے متعلق سیاسی کردار کو شامل نہیں کیا گیا)۔
معاہدہ کراچی کے بعد 1970ء تک آزاد کشمیر میں عوام کی منتخب با اختیار اور با وسائل حکومت کی قیام کی جدوجہد جاری رہی۔1950ء میں پہلی بار آزاد کشمیر حکومت کے رولز آف بزنس بنائے گئے۔ عملا رولز آف بزنس اور قانون سازی سمیت چھوٹے سے چھوٹے معاملے میںبھی وزارت امور کشمیر کے سیکشن آفیسر،جائنٹ سیکرٹری کا عمل لازمی قرار دیا گیا۔1960ء میں پہلی بار بنیادی جمہوریت کا قانون لایا گیاجس میں لوگوں نے بلدیاتی نمائندے منتخب کئے۔1964ء میں سٹیٹ کونسل کا قانون لایا گیا جس میںصدر کا انتخاب براہ راست تھا۔23سال بعد1970ء میں پہلا آئینی ڈھانچہ تشکیل دیا گیااور حکومت پاکستان کی مشاورت سے ‘آزاد جموں و کشمیر گورنمنٹ ایکٹ1970ئ’کا قیام عمل میں لایا گیا۔اس کے تحت آزاد کشمیر میں پہلی بار نمائندہ اسمبلی کا قیام عمل میں آیاجس کے تحت صدارتی نظام حکومت رائج ہوا۔اس میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پراسمبلی اورصدر کا انتخاب ہوا۔اس آئینی ڈھانچے کے ذریعے حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت عائید اپنی ذمہ داریوں کے تعین،حدود وقیود کو سامنے رکھتے ہوئے محض تین موضوعات اپنے پاس رکھے جن میں حکومت پاکستان کی UNCIP کی قرار دادوں کے حوالے سے عائید اپنی ذمہ دایاں،ڈیفنس سیکورٹی،کرنسی،مواصلات،باقی جملہ اختیارات پر قانون سازی کا حق لوگوں کی منتخب اسمبلی کو تفویض کر دیئے اور اس پر آزاد کشمیر حکومت کی ‘ ایگزیکٹیو اتھارٹی تسلیم کی گئی۔اس طرح1970ء کے ایکٹ کے تحت درج بالا تین امور کے علاوہ داخلی خود مختاری آزاد کشمیر حکومت کو دی گئی۔ 1970ء میں حکومت پاکستان نے آزاد کشمیر کو پاکستان کے باقی صوبوں کی طرح معاشی ترقی کے مواقع فراہم کرنے کے لئے وسائل کی دستیابی کے طریقہ کار کی ضرورت محسوس کی اور اس مقصد کے لئے وفاقی سطح پر ایک اعلی سطحی کمیٹی کو یہ ذمہ داری تفویض کی گئی کہ وہ آزاد کشمیر کے مخصوص علاقائی و سیاسی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان کی جانب سے لوگوں کی فلاح و بہبود ،معاشی ترقی اور تعمیر و ترقی کو یقینی بنانے کا طریقہ کار وضع کرے جو حکومت پاکستان پالیسی کے طور پر اختیار کرے۔ آئین کے مطابق آزاد کشمیر پاکستان کی علاقائی حدود میں شامل نہیں ،لہذا یہ علاقہ صوبائی یا وفاقی ،کسی بھی حیثیت میں شامل نہیں۔1970ء ایکٹ دیا گیا اور کمیٹی کی پیش کردہ رپورٹ کی روشنی میں حکومت پاکستان کی طرف سے1971ء میں پالیسی اختیار کی گئی۔آزاد کشمیر کا علاقہ پاکستان کے آئین ( آرٹیکل 2B) کے تحت صوبوں اور ناہی مخصوص علاقوں/زیر انتظام علاقوں میں شامل نہ ہونے کے باوجود پاکستانUNCIPکی قرار دادوں کے تحت اس علاقے کی تعمیر و ترقی کے سلسلے میں اپنے دیگر صوبوں کی طرح وسائل کی فراہمی میںبرابری کی بنیاد پر سلوک کرے۔حکومت پاکستان کی اس پالیسی میں یہ بھی قرار دیا گیا کہ وفاق پاکستان کی تمام وزارتیں،ادارے آزاد کشمیر کی ترقی کے حوالے سے اپنے اپنے ترقیاتی پروگراموں میںآزاد کشمیر کو بھی شامل کریں۔وفاق میں آئینی وانتظامی سطح پر قائم مختلف فورمز،بالخصوص جہاں وسائل کی تقسیم ہوتی ہے،ان فورمز میں آزاد کشمیر حکومت کے چیف ایگزیکٹیو کو خصوصی طور پر مدعو کیا جائے گاتا کہ آزاد کشمیر صوبوں میں وسائل کی تقسیم،معاشی ترقی کے لئے مرتب کردہ پروگرام و اہداف میں اپنا حصہ حاصل کر سکے۔وفاقی اداروں کے سربراہان کو بھی پابند کیا گیا کہ وہ آزاد کشمیر کے دورے کرتے ہوئے مقامی مسائل سے متعلق آگاہی حاصل کریں ۔تاکہ وفاقی ادارے آزاد کشمیر کے مسائل حل کرنے کے لئے بھر پور کردار ادا کرسکیں۔
1992ء میں پہلی بار آزاد کشمیر’ کو فکسڈ گرانٹ’ کے بجائے بلوچستان کی آبادی کے مماثل علاقہ تصور کرتے ہوئے آزاد کشمیر کو بھی2.27فیصد کے حساب سے ،وفاقی ٹیکسز سے حصہ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔بلوچستان کو ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ میں 5فیصد سے بڑہا کر 9فیصد کر دیا گیا لیکن آزاد کشمیر کا ٹیکسز میں حصہ پرانی شرح پہ ہی قائم رہا۔تاہم پاکستان کی گزشتہ حکومت ( شاہد خاقان عباسی) کے دور میں آزاد کشمیر کے لئے اس شرح میں اضافہ کرتے ہوئے اسے 3.36فیصد کیا گیا۔ حکومت پاکستان سے اس اضافے کی منظوری بھی وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان کا ایک اہم کارنامہ ہے۔گزشتہ سال آزاد کشمیر کا ترقیاتی بجٹ ساڑھے گیارہ ارب سے بڑہا کر23ارب اور اس سال ساڑھے پچیس ارب کیا گیا ہے۔’بلاک ایلو کیشن’ کہ اس پر آئندہ کے پراجیکٹ بنانے ہیں اور اسی بنیاد پر سالانہ ترقیاتی پروگرام تشکیل پاتا ہے اور اسمبلی سے منظور کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ بھی متعدد ترقیاتی منصوبے وفاقی ترقیاتی پروگرام میں شامل ہیں اور ‘ سی پیک’ کے تحت بھی مانسہرہ تا منگلا ہائی وے کی تعمیر کا منصوبہ شامل ہے۔کیرن ،لیسوا بائی پاس روڈ ، اٹھمقام تا تائو بٹ روڈ،باغ حویلی ایکسپریس وے کی طرح کے متعدد منصوبے وفاقی ترقیاتی پروگرام میں شامل ہیں۔
1970ایکٹ سے آزاد کشمیر کو داخلی خود مختاری حاصل ہوئی۔اس میں ججز کی تقرری میں،اس وقت سپریم کورٹ کا متبادل، سپریم جو ڈیشل بورڈ قائم تھا۔ اس میں ججز کی تعیناتی ،چیف الیکشن کمشنر سمیت جملہ ایگزیکٹیو اختیارات آزاد کشمیر حکومت کو تفویض تھے۔اس وقت آزاد کشمیر کے صدر(چیف ایگزیکٹیو) سردار محمد عبدالقیوم خان تھے۔1970ء سے1974ء تک سردار محمد ابراہیم خان،کے ایچ خورشید اور چودھری نور حسین نے اس حکومت کے خلاف محاذ کھڑا کئے رکھا۔آزاد کشمیر میں پاکستان کی حکمران پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔سردار محمد عبدالقیوم خان کی حکومت کے خلاف پیپلز پارٹی کی کوششوں کی کے ایچ خورشید اور چودھری نور حسین نے بھی حمایت کی۔ اس دور میں اس حکومت کے خلاف کے ایچ خورشید کہا کرتے تھے کہ ” bull in a crockery shop”۔اس وقت آزاد کشمیر میں نظام/اسمبلی قائم رکھنے کی خاطر سردار محمد عبدالقیوم خان اور ان کے ساتھیوں نے1970ایکٹ کی جگہ1974کا ایکٹ لائے جانے پر رضامندی ظاہر کی۔آزاد کشمیر کے لئے آئین کی تبدیلی کا بظاہر یہ جواز پیش کیا گیا کہ پاکستان میں1973ء کے آئین کے تحت پارلیمانی جمہوری نظام لایا گیا ہے لہذا آزاد کشمیر میں بھی پارلیمانی جمہوری نظام قائم کیا جا رہا ہے۔
آزاد کشمیر میں 1974ء ایکٹ کے تحت تین مقننہ بنا دی گئیں۔نمبر ایک،پاکستان حکومت ،جسے چار موضوعات(1970ایکٹ والے)،UNCIPکے تحت عائید ذمہ داریاں ،دفاع سیکورٹی،کرنسی،بیرونی امداد ،خارجہ امور،اس بارے قانون سازی کا اختیار پاکستان کے پاس ہی رہااور اس حوالے سے آزاد جموں و کشمیر کونسل یا اسمبلی قانون سازی نہیں کر سکتی۔دوسری مقننہ کونسل،جس کا سربراہ وزیر اعظم پاکستان کو بنایا گیا،صدر آزاد کشمیر وائس چیئر مین،وزیر اعظم بطور ممبر،پانچ ممبرپارلیمنٹ یا وفاقی کابینہ کے ارکان میں سے وزیر اعظم پاکستان کے انتخاب کے ذریعے اور چھ ممبر آزاد کشمیر اسمبلی کے ذریعے منتخب ۔52موضوعات کونسل کو دیئے گئے۔یہ 1973ء آئین میں وفاق کے قانون سازی کے موضوعات کے مطابق ہے۔کونسل کو دیئے گئے ان موضوعات میں انکم ٹیکس کے علاوہ،سیاحت،سوشل ویلفیئر،کیپٹل ویلیو ٹیکس،محکمہ بجلی،نیوکلیئر انرجی،ایئر کرافٹ،ریلوے،بنک،سٹیٹ بنک،سٹاک ایکسچینج،سینسز،ناپ تول کے پیمانے،منرلز،،نیوز پیپرز ،بکس،سٹیٹ پراپرٹی،سینما،پوسٹ ٹیلی گراف اور سٹیٹ سبجیکٹ بھی شامل کئے گئے۔یوں مقامی سطح کے امور کی ذمہ داری بھی آزاد کشمیر حکومت کے بجائے کونسل کے سپرد کی گئی۔1975میں قائم ہونے والی اسمبلی نے پہلی آئینی ترمیم کی گئی جس کے تحت 40سے زائد شقیںتبدیل کر کے کونسل کو52موضوعات پر ایگزیکٹیو اتھارٹی بھی دے دی گئی۔1977ء تک مزید ترامیم کی گئیں جن میں ججز کی تقرری کے اختیارات کونسل(چیئر مین کونسل) کو دے دیئے گئے۔اسی طرح چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی میں بھی چیئر مین کونسل کی مشاوت لازم قرار دے گئی۔کونسل کے ماتحت ایک الگ خزانہ(consolidated fund)قائم کیا گیا جس میں انکم ٹیکس سمیت دیگر ٹیکسز جمع کرنا لازم قرار دیا گیا۔یوں عملا آزاد کشمیر حکومت کا ٹیکس نفاذ و وصولی سمیت دیگر قدرتی وسائل کو بروئے کار لانے ،آمدن میں اضافے کے ذرائع کو محدود کر دیا گیا۔پاکستان میں1977 میں مارشل لاء حکومت نے1979ء میں،آزاد کشمیر میں قائم کردہ اپنی عارضی حکومت کے ذریعے،محکمہ حسابات،انکم ٹیکس کونسل کو منتقل کر دیئے ،جو1974ایکٹ کے تحت آزاد کشمیر حکومت کے تحت چل رہے تھے۔کونسل کو آزاد کشمیر میں انکم ٹیکس جمع کرنے کا اختیار دیتے ہوئے کونسل کو محاصل کا20فیصد اپنے پاس رکھنے اور 80فیصد ماہانہ بنیادوں پر آزاد کشمیر حکومت کو دینے کا طریقہ کار وضع کیا گیا۔ٹیکس کی شرح اور حجم میں اضافے سے کونسل کی فکس آمدن بڑہتی گئی جو کونسل ( قاسم شاہ،فیصل صالح حیات، منظور وٹو وغیرہ) نے مہاجرین کے نام پر اپنے حلقوں میں لگانے کا سلسلہ جاری رکھا۔احتجاج پر ممبران کونسل کو بھی ترقیاتی فنڈ دینے شروع کر دیئے اور بڑا حصہ ‘ بلاک ایلو کیشن’ کی صورت میں انچارج وزیر نے اپنی صوابدید پر رکھنا شروع کر دی اور اس میں ‘خرد برد’ بھی شروع ہو گئی۔اسی حوالے سے کونسل نے بیس سال کوئی آڈٹ نہیں کرایا۔آزادکشمیر کو ماہانہ بنیادوں پر جو 80فیصد دیا جانا تھا،وہ نہ ملتا،تاخیر سے ملتا۔کونسل نے اسی لئے ہر سال مالی سال کے اختتام پر بجٹ منظور کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور آزاد کشمیر حکومت کو یہ عذر پیش کرتے کہ ابھی کونسل کا بجٹ ہی منظور نہیں ہوا۔یوں آزاد کشمیر حکومت مسلسل مالی تنگدستی کا شکار رہتی،بنکوں سے ‘او ڈی ‘ لینا پڑتا اور ‘او ڈی ‘ کی رقم شیطان کی آنت کی طرح بڑہتے بڑہتے کئی ارب تک جا پہنچی۔ٹیکسز کے سالانہ اہداف،محاصل کی درست وصولی کے نظام پر جب بھی آزاد کشمیر حکومت نے سوال کیا تو کونسل نے کبھی مثبت جواب نہیں دیا۔عملا محاصل کی درست وصولی میں مالی نقصان تھا ،اس حوالے سے آزاد کشمیر کی ہر حکومت میں تشویش پائی جاتی رہی۔یوں کونسل اپنی جملہ کار گزاریوں سے آزاد کشمیر حکومت سے ہمیشہ کشیدگی اور نزاع کی صورت چلی آ رہی تھی۔عوامی سطح پر بھی کونسل کے اس کردار کے خلاف تشویش میں اضافہ ہونے لگا اور کونسل کے خاتمے کے لئے ہر سطح پہ مطالبات سامنے آنے لگے۔
2008ء میں آزاد کشمیر کے صدر راجہ ذوالقرنین خان کی طرف سے1970ء اور1974ء کے آئین میں آزاد کشمیر حکومت کے اختیارات میں کمی کا موازنہ کرایا گیا اور اس مقصد کے لئے کشمیر ہائوس اسلام آباد میں ‘ آل پارٹیز کانفرنس’ کا انعقاد کیا گیا جس میں سیکرٹری قانون(وقت) نے آزاد کشمیر حکومت کے اختیارات میں کمی کا تقابلی جائزہ پیش کیا۔اس کانفرنس میں راجہ فاروق حیدر خان،سردار عتیق احمد خان،سردار یعقوب خان،جسٹس (ر) عبدالمجید ملک بھی شامل تھے۔اس کانفرنس کے ذریعے پہلی بار 1970کے آئین کے مقابلے میں 1974کے آئین میں آزاد کشمیر حکومت کے اختیارات میں کمی کے امور کھل کر سامنے آئے کہ 1970ایکٹ میں آزاد کشمیر حکومت کو جو اندرونی خود مختاری کے حوالے سے جو فرائض تفویض کئے گئے تھے،وہ1974کے آئین میں کونسل کے قیام سے آزاد کشمیر حکومت کے ایگزیکٹیو اور قانون سازی کا دائرہ کار محدود سے محدود تر ہوا۔ اس کے بعدوزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی مظفر آباد کے دورے پر آئے تو انہیں آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے سیکرٹری قانون نے آئینی معاملات پر بریفنگ دی۔اجلاس کے بعد وزیر اعظم پاکستان سے سیاسی جماعتوں کے اکابرین سے ملاقات میں آزاد کشمیر کے عبوری آئین میں اصلاھات کرتے ہوئے آزاد کشمیر حکومت کو با اختیار کرنے کا مطالبہ دہرایا گیا۔وزیر اعظم گیلانی نے آئینی اصلاحات کے مطالنے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ” جو میرے دور میں لے سکتے ہیں،وہ لے لیں،شاید کوئی دوسرا نہ کرے،مجھ سے یہ کروا لیں”۔ساتھ ہی اس حوالے سے صدر آزاد کشمیر کی سربراہی میں ایک اعلی سطحی جائزہ کمیٹی قائم کی گئی جس میںوفاقی وزیر قانون، وزیر امور کشمیر،وزیر قانون آزاد کشمیر اور قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کو شامل کیا گیا۔کمیٹی نوٹیفیکیشن کی سمری وزارت امور کشمیر میں گئی تو اسی دوران قمر الزمان قائرہ کی جگہ میاں منظور وٹو وزیر امور کشمیر بن گئے۔منظور وٹو نے سمری وزیر اعظم پاکستان کے دفتر سے واپس منگوالی۔اس وقت کی آزاد کشمیر حکومت نے گاہے بگاہے آئینی اصلاحات سے متعلق اپنے مطالبات جاری رکھے۔آزاد کشمیر میں سردارمحمد یعقوب خان کے بعد راجہ فاروق حیدر خان وزیر اعظم بنے تو انہوں نے وزیر قانون( عبدالرشید عباسی) اور سیکرٹری قانون( فرحت علی میر) کو مسودہ قانون تیار کرنے کی ہدایت کی تاکہ وہ مسودہ قانون منظوری کے لئے بوساطت کشمیر افیئر ڈویژن حکومت پاکستان کو بجھوایا جا ئے۔1۔عبوری آئین کی دفعہ33کے تحت صرف تین ایسے امور جن میں ترمیم کرنے سے قبل حکومت پاکستان کی پیشگی اجازت درکار ہے،دفعہ31کے تحت حکومت پاکستان، کونسل اور اسمبلی کے درمیان قانون سازی کی غرض سے امور و معاملات کی تقسیم۔2۔دفعہ33میں عبوری آئین میں، اسمبلی کے مشترکہ اجلاس کی سادہ اکثریت سے ترمیم کو منظور کیا جا سکتا ہے۔3۔دفعہ56کہ حکومت پاکستان کو 31(3)کے تحت دیئے گئے چار موضوعات ،UNCIPکی قرار دادوں سے عائید ذمہ داریاںکے مطابق آزاد کشمیر کے دفاع و سیکورٹی،کرنسی وغیرہ اور خارجہ امور پر عملدرآمد کے حوالے سے کوئی رکاوٹ نہ ہو۔نئی ترامیم میں مشترکہ اسمبلی اجلاس کی سادہ اکثریت کو تبدیل کر کے دو تہائی اکثریت کیا گیا ہے۔آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی سابق حکومت نے مالیاتی معاملے پر اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے سڑک پہ دھرنا دیا۔ اس پر احسن قبال ،سید خورشید شاہ پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی جس نے ایک سب کمیٹی بنائی جس کے سیکرٹری خزانہ کی سربراہی میںتقریبا دس دنوں میں دس سے زائد اجلاس ہوئے تاہم پوائنٹ سکورنگ کے سیاسی حربے کی وجہ سے یہ معاملہ تعطل کا شکار ہو گیا۔آئینی اصلاحات سے متعلق آزاد کشمیر حکومت کے مطالبات جاری رہے۔
2014-15ء میں آزاد کشمیر اسمبلی ممبران کی طرف سے آئینی اصلاحات کے مطالبے پر،آئینی اصلاحات کی تجاویز مرتب کرنے کے لئے چودھری لطیف اکبر کی سربراہی میں ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی ۔ چودھری لطیف اکبر علالت کی وجہ سے لندن علاج کرانے چلے گئے ،اس پر مطلوب انقلابی کو اس پارلیمانی کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا۔اس کمیٹی نے 2008ء میں مرتب شدہ آئینی اصلاحاتی بل کو زیر غور لاتے ہوئے اپوزیشن کے ساتھ متعدد مشاورتی اجلاس کئے،اور پاکستان کے آئین کی18ویں ترمیم کی روشنی میںآئین کا اصلاحاتی بل مرتب کیا۔وہ بل اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں پیش کرنے کے بجائے،اسمبلی میں اپنی رپورٹ کے ساتھ پیش کیا۔اس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس حواالے سے مثبت انداز میں خاطر خواہ پیش رفت نہ کی اور نہ ہی کوئی مضبوط کوشش کی گئی۔2015ء میںپیپلز پارٹی حکومت کے وزیر خزانہ چودھری لطیف اکبر نے بجٹ کی تیاری کے مرحلے پہ ،آئندہ مالی سال کے محاصل کے اہداف کے سلسلے میںکمشنر انکم ٹیکس کو متعلقہ کمیٹی میں مشاورت کے لئے طلب کیا لیکن کونسل نے کمشنر انکم ٹیکس کو فاضل رکن کمیٹی کے طور پر پیش ہونے سے منع کر دیا۔ا س صورتحال میں اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران ایک قرار داد منظور کی گئی کہ 1979ء میں جنرل حیات خان کے دور حکومت میں ایک انتظامی حکم کے تحت انکم ٹیکس و حسابات ،جو کونسل کو دیئے گئے تھے،کی واپسی کے لئے اس آرڈر کو منسوخ کیا گیا لیکن اسمبلی قرار داد منظور ہونے کے باوجود آزاد کشمیر کی سابق پیپلز پارٹی حکومت نے متذکرہ انتظامی حکم کو منسوخ کرنے کی جرات کا مظاہرہ نہ کیا۔
29دسمبر2016ء میں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے مظفر آبا د کے دورے کے موقع پر آئینی اصلاحات کا مطالبہ دہرایا گیا جس پر وزیر اعظم نواز شریف نے یقین دلایا کہ 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کی طرح آزاد کشمیر کو بھی با اختیار کیا جائے گا۔وزیر اعظم نواز شریف نے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی جس میںمشیر خارجہ امورسرتاج عزیز، وزیر امور کشمیر اور وزیر اعظم آزاد کشمیر شامل تھے۔اس کمیٹی کے اجلاس میں معاون خصوصی وزیر مملکت بیرسٹر ظفر اللہ کے علاوہ وفاقی اور آزاد کشمیر کے اعلی افسران شریک ہوئے۔کمیٹی اجلاس میں آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے24اکتوبر1947ء کو قائم ہونے والی آزاد حکومت کے مقاصد، 1947ء سے1974ء اور1974ء سے نئی صورتحال تک آزاد کشمیر کے نظام حکومت کا جائزہ پیش کیا اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت حکومت پاکستان کی طرف سے آزاد کشمیر میں ایک منظم،با وسائل و با اختیار حکومت کے لئے لازمی اختیارات پر زور دیا گیا۔اجلاس میں وزیر امور کشمیر کی طرف سے اعتراض کیا گیا کہ کمیٹی کی طرف سے اس معاملے پر غور کرنے سے قبل،آزاد کشمیر حکومت ان کو(وزیر امور کشمیر کو)بریفنگ دے اور انہیں مطمئن کیا جائے۔وزیر امور کشمیر کو بریفنگ دی گئی لیکن وزیر امور کشمیر نے آزاد کشمیر حکومت سے وقت مانگا کہ وہ ممبران کونسل کے حقوق کے تحفظ اور متعلقہ اداروں سے مشاورت کے بعد ،ان کی تجویز پر حتمی سفارشات پیش کریں گے۔وزیر امور کشمیر نے آزاد کشمیر حکومت سے مسودہ منگوانے کے بعد بہانوں سے تاخیری حربے شروع کر دیئے۔وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کے دورہ مظفر آباد کے موقع پر بھی آئینی اصلاحات کا مطالبہ دہرایا گیااور وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے وفاقی سطح کے کئی اجلاسوں میں بھی یہ مطالبہ پیش کیا۔13فروری2018ء کو ایک اجلاس میںو زیر اعظم پاکستان کو آزاد کشمیر کے ترقیاتی،انتظامی اور آئینی امور پر بریفنگ دی گئی۔سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف نے اپنی جماعت کی حکومت کی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو آزاد کشمیر کے مالیاتی امور اور آئین میں ترمیم کی ہدایت کی۔ اس پر حکومت پاکستان کی طرف سے آزاد کشمیر کے ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کرتے ہوئے23ارب کر دیا۔اجلاس میں ترقیاتی بجٹ23ارب سے25ارب کیا گیا اور بعد ازاں وفاقی ٹیکس پول میں اضافہ کرنے کے علاوہ آئینی اصلاحات کے حوالے سے کونسل کے کردار اور ضرورت کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد وزیر اعظم پاکستان نے اعلان کیا کہ منتخب حکومت کے ہوتے ہوئے کونسل کو اس قدر قانون سازی اور ٹیکس کے مالیاتی اختیارات دینے کا اخلاقی ،قانونی جواز نہیں ہے،لہذا کونسل کو ختم کر دیا جائے۔یہ اعلان ہو گیا لیکن اس اجلاس کے منٹس جاری نہ ہونے دیئے گئے جس پر مختلف فورمز،سیاسی ،سماجی حلقوں میں بحث شروع ہو گئی۔آزاد کشمیر کے دو سیاسی رہنمائوں کی طرف سے کہا گیا کہ کونسل کو ختم نہ کیا جائے،کونسل پل کا کردار ادا کر رہی ہے۔آخر کار نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس میں طے پایا کہ آزاد جموں و کشمیر کونسل کو مکمل طور پر ختم نہ کیا جائے،البتہ اسے مشاورتی ادارہ کے طور پر قائم رکھا جائے اور کونسل کو تفویض کردہ مالیاتی اور قانون سازی کے اختیارات آزاد کشمیر حکومت کو منتقل کئے جائیں۔ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اس فیصلے کی روشنی میں مسودہ ترامیم وفاقی وزارت قانون اور آزاد کشمیر حکومت کی مشاورت سے دوبارہ مرتب کیا گیا،جس میںدفعہ 31،33و دیگر متعلقہ شقوں میں اصلاحات اور تبدیلیوں پر مشتمل مسودہ تیار کیا گیا۔آزاد کشمیر کے ججز کے تقرر کے طریقہ کار،ججز اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی تجویز کی گئی اور ایک مرحلہ پر ان تقرریوں کے سلسلے میں وزیر اعظم پاکستان کی مشاورت کے اختیار کو بھی آزاد کشمیر کو منتقل کرنے کی تجویز زیر غور لائی گئی لیکن بعد میں بعض سیاسی حلقوںکی خواہش پر اعلی عدالتوں میں ججز کی تقرری اور چیف الیکشن کمشنر و آڈیٹر جنرل کی تقرری کے سلسلے میں چیئرمین کونسل/وزیر اعظم پاکستان کے مشورہ دینے کے اختیار کو برقرار رکھتے ہوئے ان متعلقہ شقوں میں تبدیلی نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔18مئی2018کو وفاقی وزارت قانون نے ایک مسودہ آزاد کشمیر حکومت کو ارسال کیا ،جس کی روشنی میں تحت قانون مزید کاروائی کا عندیہ دیا گیا۔اس مسودہ کو حکومت پاکستان کی منظوری سے تعبیر کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیااور ابتدائی طور پر عدالت میں کہا گیا کہ پاکستان حکومت نے 18مئی کو وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر آزاد کشمیر کو عبوری آئین میں دفعہ31اور33کے لئے مطلوبہ منظوری دے دی گئی ہے ۔پاکستان سپریم کورٹ کے ،مشروط فیصلہ ”مصطفی امپکس’ کی روشنی میںاسلام آباد ہائیکورٹ نے حکم امتناعی جاری کیا جو ڈپٹی اٹارنی جنرل اور وفاقی وزارت قانون کی وضاحت کی روشنی میں مورخہ29مئی کو رٹ خارج کر دی گئی۔وفاقی وزارت قانون سے مرتب و موصول شدہ مسودہ قانون کی منظوری 29مئی کو کابینہ اجلاس میں پیش ہوا۔تاہم کابینہ اجلاس کے طویل ایجنڈے کے باعث اس آئٹم سمیت دیگر امور31مئی کے کابینہ اجلاس تک کے لئے ملتوی کر کے31مئی کے کابینہ اجلاس میں زیر غور لایا گیا اور اس کی منظوری دے دی گئی۔
آرٹیکل22،اسمبلی کے کل49ارکان کی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے ان کی تعداد53کی گئی ہے۔4اسمبلی نشستوں میں اضافہ نئی مردم شماری کے مطابق آبادی کی تقسیم کی بنیادوں پر کیا جائے گا۔مہاجرین جمو ں و کشمیر مقیم پاکستان کی چھ،چھ نشستیںآئین میں شامل نہ تھیں اور یہ ان کے ساتھ بڑی زیادتی تھی۔یوں مہاجرین جموں و کشمیر مقیم پاکستان کے موجودہ ممبران اور پہلے منتخب ہونے والوں کو بھی عبوری آئین میں شامل کرتے ہوئے تحفظ فراہم کیا گیاہے۔آرٹیکل27، ایک سال کی مدت میں اسمبلی کے کم از کم60اجلاس منعقد ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔آرٹیکل31کے تحت پہلے قانون سازی کے اختیارات کونسل،اسمبلی اور حکومت پاکستان کے درمیان موضوعات کے اعتبار سے تقسیم تھے،اسے ختم کر کے اب تمام معاملات میں قانون سازی کا اختیار صرف آزاد کشمیر اسمبلی کو حاصل ہے،ماسوائے جو کہ شیڈول تھرڈ کے پارٹAمیں درج ہیں۔جبکہ پارٹBمیں درج معاملات میں اسمبلی کو اختیار دیا گیا ہے کہ حکومت پاکستان کی رضامندی سے ان امور میں بھی قانون سازی کر سکتی ہے۔آرٹیکل32،اسلامی نظریاتی کونسل۔آرٹیکل33۔31،33،56اس کو تبدیل نہیں کیا گیا،ترمیم دو تہائی اکثریت سے ہو سکے گی۔33A، جائنٹ سٹنگ ختم۔آرٹیکل34، تبدیلی کہ اسمبلی کاروائی کی روئیداد،اس میں سے کونسل کے الفاظ ختم ۔آرٹیکل37، ایک ہی سرکاری خزانہ ہو گا۔آرٹیکل41، آرڈیننس جاری ہونے کے چار ماہ بعد ،دوبارہ چار ماہ کا اجراء اسمبلی قرار داد کے ذریعے ہو گا اور تو سیع صرف ایک ہی بار ہو سکے گی۔آرٹیکل42A، کونسل الفاظ حذف کر کے، اب عدالتی رولز کے بارے میں حکومت سے مشورہ۔آرٹیکل43، شریعت کورٹ ختم،شریعے ایپلٹ بنچ کو آئینی تحفظ۔آرٹیکل47، انتظامی کورٹس،ٹریبونلز،حکومت اور اسمبلی کو۔آرٹیکل48، پبلک سروس کمیشن،چیئر مین کی تقرری کے لئے وزیر اعظم اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کر سکتا ہے۔آرٹیکل50، الیکشن کمیشن، اب پاکستان کی طرز پہ الیکشن کمیشن،چیئرمین اور دو ممبران،چیف الیکشن کمشنر کی تقرری وزیر اعظم پاکستان کی مشاورت سے صدر آزاد کشمیر حکومت آزاد کشمیر کی تحریک پر کرے گا۔چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لئے وزیر اعظم آزاد کشمیر اپوزیشن لیڈر سے لازمی مشورہ کرے گا۔چیف الیکشن کمشنر ،سابق جج ہائیکورٹ،سپریم کورٹ یا سول سرونٹ(آزاد کشمیر) گریڈ 21یا بالا ۔آرٹیکل51، ترمیم، کونسل کے بنائے گئے قوانین کو تحفظ دیا گیا ہے جس میں اضافے،کمی بیشی کا اختیار اسمبلی کو حاصل ہو گا،ان قوانین میں اندر کونسل الفاظ سے مراد آزاد کشمیر اسمبلی یا حکومت آزاد کشمیر ہو گا۔نیا آرٹیکل51A، ایکٹ2018ترمیمی کے نفاذ سے قبل کونسل کے اثاثے ،منقولہ ،غیر منقولہ،بنکوں میں،کسی اکائونٹ میں فکسڈ ڈیپازٹ،اس کی ذمہ داریاں جو کسی قانون کے تحت موجود ہوں،سب کو تحفظ ۔کونسل سیکرٹریٹ ،انکم ٹیکس ،اکائونٹنٹ جنرل آفس ،سوشل ویلفیئروغیرہ کے تمام ملازمین کے حقوق و فرائض کو تحفظ۔عارضی ،کنٹریکٹ ملازمین کو موجودہ قانون کے تحت مستقل تقرری کا استحقاق حاصل نہ ہوگا۔منتخب ممبران کونسل اور ملازمین کی قانونی مراعات ،تنخواہ،الائونسز،پینشن فوائد جو قانون تحت حاصل تھے،کو بھی تحفظ حاصل ہو گا۔اس سلسلے میں بجٹ آزاد کشمیر حکومت اپنے فنڈ سے۔آرٹیکل52، پاکستان کے آئین کی شق کے مطابق کہ اگر کسی بنک اکائونٹ ہولڈر کا کوئی وارث نہ تو اس کی وارث حکومت قرار پاتی ہے،یوں ایسے شخص کے اکائونٹ کی رقم آزاد کشمیرحکومت کو منتقل ہو جائے گی۔52C، قدرتی وسائل پر پہلا حق عوام کا ہے،حکومت کا پہلا حق ہے کہ وہ استعمال ،استفادے کا خود بندوبست نہیں کر سکتی تو قانون سازی کر کے پاکستان کے کسی ادارے کو اس کی ذمہ داری تفویض کر سکتی ہے۔نیٹ چارجز،رائلٹی،ماحولیاتی تبدیلیوں پر اثر انداز /تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔آرٹیکل53، جائنٹ سٹنگ حذف۔ایمر جنسی نفاذ کی صورت اسمبلی ختم نہ ہو گی اور نہ ہی بنیادی حقوق معطل ہوں گے۔آرٹیکل58، صدر رولز آف بزنس وزیر اعظم کے مشورے پر بنائے گا۔
آزاد کشمیر کے ایک مخصوص سیاسی حلقے کی جانب سے یہ سوال کہ ” کوئی ایک ایسا نکتہ جو آزاد کشمیر کو پاکستان کے صوبوں سے ممتاز کرتا ہو؟”اس بارے میں متعدد نکات ہیں جو آزاد کشمیر کی حیثیت کو پاکستان کے صوبوں سے ممتاز کرتے ہیں ۔ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔پاکستان کے آئین میں آرٹیکل257کے علاوہ آزاد کشمیر سے متعلق کوئی شق شامل نہیں ہے۔آزاد کشمیرآئین کی دفعہ2Aمیں بطورعلاقہ شامل نہ ہے۔آزاد کشمیر پاکستان کا صوبہ اسی وقت بن سکتا ہے کہ جب یہ بات پاکستان کے آئین میں شامل کی جائے ۔انکم ٹیکس صوبوں کا مرکز کے پاس۔صوبوں کاسیلز ٹیکس آن گڈز مرکز کے پاس،صوبوں کے پاس صرف سروسز پر ٹیکس ہے۔صوبے ایک ایف سی کا ھصہ ہیں،ان کو ایوارڈ ملتا ہے،آزاد کشمیر چاہے بھی تو آئینی کمپوزیشن کے تحت اس میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔پاکستان اور آزاد کشمیر کا 1992ء کا مالیاتی معاہدہ الگ سے ہے ۔آزاد کشمیر حکومت کو مالیاتی،انتظامی اور قانون سازی کے حوالے سے با اختیار بنانے کے اس اہم سنگ میل کو عبور کرنا وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کی ایک تاریخ ساز کامیابی ہے۔آئینی ترامیم کے ہدف کے حصول کے بعد یہ سوال عمومی طور پر پوچھا جا رہا ہے کہ اس کے ثمرات کیا ہیں اور آزاد کشمیر کے شہریوں اور خطے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟آزاد کشمیر حکومت کو با اختیار بنانے میں ایک اہم کامیابی تو حاصل کی گئی ہے تاہم اب آزاد کشمیر کو باوقار ثابت کرنے کی ذمہ داری مقامی ذمہ داری کے طور پر درپیش ہے ۔یعنی اب یہ آزاد کشمیر پر منحصر ہے کہ مالیاتی،انتظامی اور قانون سازی کے اختیارات حاصل ہونے کے بعد آزاد کشمیر کو باوقار بھی ثابت کیا جائے۔اس مقصد کے لئے آزاد کشمیر میں قبیلائی،علاقائی ازم کے تعصبات،بدعنوانی سمیت معاشرتی برائیوں کا خاتمہ، آزاد کشمیر کے خطے کو کشمیر کاز سے منسلک اور مضبوط کرنے اور کشمیری مہاجرین کو اہمیت دیئے جانے کے کے اقدامات اور رجحان پیدا کرنا ناگزیر ہے۔اور اسی صورت مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کا موازنہ قابل فخر طور پر کیا جا سکے گا۔
اطہر مسعود وانی