کشمیرکے لوگ مسئلہ کشمیرکابھارتی آئین کے باہرحل چاہتے ہیں
مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلی عمرعبداللہ کا بھارتی ٹی وی سے انٹرویو
سری نگر مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلی عمرعبداللہ نے دوٹوک الفاظ میں کہاہے کہ کشمیروادی میں آزادی ایک مضبوط جذبہ ہے ۔انہوں نے یہ بھی واضح کردیاکہ طاقت پرمبنی پالیسی کشمیرمیں کبھی کارگرثابت نہیں ہوسکتی ہے، اوریہ کہ اس با ت سے انکارنہیں کیاجاسکتاہے کہ کشمیرکے لوگ مسئلہ کشمیرکابھارتی آئین کے باہرحل چاہتے ہیں ۔ بھارتی ٹی وی کیساتھ ایک انٹرویوعمرعبداللہ کاکہناتھاکہ کشمیرکی موجودہ صورتحال کیلئے بھارتی حکمران اور حکموتیں ذمہ دارہیں کیونکہ انہوں نے کبھی کشمیری عوام کیساتھ کئے گئے وعدوں کوعملی جامہ نہیں پہنایااورنہ انہوں نے اپنی کہی باتوں کابھرم رکھا۔عمرعبداللہ نے کہاکہ نرسمہارائونے آسمان حدہے کی بات کہہ دی اورپھرکچھ نہیں کیا۔واجپائی جی نے انسانیت ،جمہوریت اورکشمیریت کی بات کہی لیکن وہ بھی عملی طورپر کچھ نہیں کرپائے۔انہوں نے کہاکہ آج کی بھارتی حکومت توکشمیرمسئلے کے سیاسی پہلوکوماننے کیلئے ہی تیارنہیں ،اورمودی حکومت کی نظرمیںیہ امن وقانون اوراقتصادی عاملہ ہے۔ایک سوال کے جواب میں سابق وزیراعلی کاکہناتھاکہ کشمیرمسئلے کے کم سے کم تین پہلوہیں ،ایک یہ کہ کشمیربھارت اورپاکستان کے درمیان ایک تنازعہ ہے ،دوئم یہ کہ بھارت اورریاست کے مابین کئی معاملات حل طلب ہیں ،اورتیسراپہلواندرونی سطح کاہے جوریاست کے تین خطوں کشمیر،جموں اورلداخ کے درمیان ہے یاکہ ان تینوں خطوں کے اندرپایاجاتاہے۔عمرعبداللہ نے مودی سرکارکی طاقت پرمبنی کشمیرپالیسی کوبے سودقراردیتے ہوئے خبردارکیاکہ اس قسم کے اپروچ سے کشمیریوں بالخصوص نوجوانوں میں پائی جانے والی بے گانگی میں تشوشناک طورپراضافہ ہواہے ۔انہوں نے کہاکہ کچھ بھارتی نیوز چینلز نے کشمیراورکشمیریوں کیخلاف زہرافشانی پرمبنی جونہج اپنارکھی ہے،اسے بھی کشمیری نوجوانوں میں اشتعال بڑھ رہاہے ۔عمرعبداللہ نے کہاکہ سبھی کشمیریوں کوانتہاپسنداورامن دشمن قراردینے کی میڈیاپالیسی کے منفی نتائج برآمدہوتے ہیں ۔سابق وزیراعلی نے سینئرصحافی شجاعت بخاری کی ہلاکت کے تناظر میں کہاکہ ایک جانب کشمیری صحافیوں کوکھلی دھمکی دی جارہی ہے ۔عمرعبداللہ کاکہناتھاکہ اب بھی موقعہ ہے کہ کشمیرکے حوالے سے حکومت ہندسیاسی پالیسی اپنائے کیونکہ کشمیرایک سیاسی مسئلہ ہے نہ کہ خالصتاامن وقانون یاکوئی اقتصادی مسئلہ ،جسکوطاقت یاترقیاتی پیکیج دیکرحل کیاجاسکتاہے۔انہوں نے کہاکہ موجودہ صورتحال میں کشمیری نوجوانوں کواسبات کیلئے قائل کرنابہت ہی مشکل ہے کہ مذاکرات سے کشمیرمسئلے کوحل کیاجاسکتاہے۔عمرعبداللہ کاکہناتھاکہ شجاعت بخاری کے قتل سے سیول سوسائٹی اورسیاسی لیڈرشپ بشمول حریت لیڈروں کویہ سخت پیغام ملاہے کہ بھارت کیساتھ مذاکرات کاکوئی فائدہ نہیں ۔ بی جے پی کی جانب سے پی ڈی پی سے حمایت واپس لیکرمحبوبہ مفتی کی سرکارکوگراناجموں وکشمیرکی سیاست پرسرجیکل اسٹرائیک جیساہے کیونکہ اس اچانک فیصلہ کی کانوں کان خبرپی ڈی پی تودورکی بات مرکزی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ تک کونہیں تھی ۔انہوں نے کہاکہ محبوبہ مفتی کوبھاجپافیصلہ کی جانکاری ریاستی گورنرنے فون پراسوقت دی جب محبوبہ مفتی اورانکی کابینہ میں شامل کئی وزیرسیول سیکرٹریٹ سری نگرمیں اپنے دفاتر میں کام کررہے تھے جبکہ راجناتھ سنگھ کویہ خبرنیوز چینلز سے ملی ۔عمرعبداللہ نے کہاکہ ایساہوناہی تھالیکن رواں برس کے اوآخرتک اس کی امیدتھی لیکن بھاجپانے اچانک یہ فیصلہ لیکرمحبوبہ مفتی اورانکی جماعت کوبڑاجھٹکادیا۔انہوں نے کہاکہ غالبامحبوبہ مفتی رواں برس کے آخرتک ایساکوئی فیصلہ اپنی جانب سے لیتی لیکن بھاجپانے اس میں پہل کردی ۔عمرعبداللہ نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ اگرمفتی محمدسعیدکے انتقال کے بعدمحبوبہ مفتی بھاجپاکیساتھ اتحادپرراضی نہ ہوتیں توپی ڈی پی ٹوٹ پھوٹ کی شکارہوجاتی ۔انہوں نے کہاکہ ابھی بھی خطرہ نہیں ٹلابلکہ پی ڈی پی اب بھی ٹوٹ سکتی ہے۔