کولوراڈو…. سائیکل سواری بلاشبہ ایک اچھی چیز ہے مگر سائیکل چلانے والے جن تجربات سے گزرتے ہیں عام آدمی کو اس کا درست اندازہ نہیں ہوپاتا۔ مثلاً وہ یہ نہیں جانتے کہ سائیکل چلاتے ہوئے بیچ راستے میں چین اتر جائے تو کیا پریشانی جھیلنا پڑتی ہے۔ چین کو رواں رکھنے کیلئے گریس لگائی جاتی ہے اور اسی وجہ سے ایک اچھا خاصا مسئلہ سائیکل سوارکو پیش آتا ہے۔ مثلاً یہ کہ سردی ہے تو گریس جم کر سخت ہوجاتی ہے اور اسے چین اور پہیے میں لگانا مشکل ہوتا ہے اگر گرمی ہو گریس پانی کی طرح پگھلنے لگتی ہے۔ ایسی صورت میں چین کو بار بار چڑھانے میں انسان کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں۔بیچ سڑک پر شدید گرمی میں کوئی مدد گار بھی نظر نہیں آ تا جو تعاون کرے۔ سب کچھ سائیکل سوار کو خود ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ انہی تمام مسائل کے حل کیلئے ڈنمارک میں قائم ایک کمپنی سرامک اسپیڈ نے ایک انقلاب آفریں سائیکل تیار کی ہے جو پیڈل کی طاقت سے کشید کردہ قوت سائیکل کے پچھلے پہیے تک پہنچاتی ہے اور پھر سائیکل چلتی رہتی ہے۔ گریس لگانے یا چین چڑھانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ ظاہری شکل و صورت اور بناوٹ کے اعتبار سے یہ اس کھلونا ٹرین کی طرح ہے جسے ڈرائیو ٹرین کہا جاتا ہے اور جسے ڈوری سے باندھ کر بچے کھینچتے ہوئے ادھر اُدھر آتے جاتے اور تفریح کرتے ہیں۔ سائیکلوں کے کاروبار کے حوالے سے مشہور کمپنی نے اس سائیکل کے بننے کا خیر مقدم کیا ہے مگر اسکا کہنا ہے کہ اسے جدید قسم کی بنائی ہوئی سائیکل کی کارکردگی پر اب بھی شبہ ہے اسلئے کچھ عرصے بعد جو تجربات سامنے آئیں گے وہی اسے مقبول اور غیر مقبول بنائیں گے۔ واضح ہو کہ ڈرائیو سسٹم میں تکنیکی اعتبار سے حالیہ برسوں میں بہت سے مراحل دیکھے ہیں اور کافی پیش قدمی کی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی یونیورسٹی آف کولوراڈو کے مکینیکل انجینئرنگ کے شعبے کے تعاون سے استعمال میں لائی جارہی ہے۔