Site icon روزنامہ کشمیر لنک

جب جنرل ضیاء دنیا سے رخصت ہوئے

جب جنرل ضیاء دنیا سے رخصت ہوئے
ماہر علی

دبئی کے نیوز روم میں کام کرنے والے جمعرات کی راتوں کو بیزارکن فون کالز وصول کرنے کے عادی ہوا کرتے تھے۔ یہ ہفتہ وار چھٹی کی ابتداء ہوتی اور قبل از انٹرنیٹ کے دور میں چند پرائے دیس میں رہنے والے افراد اخباروں کے دفاتر میں فون کالز کرکے افواہیں پھیلانے کی سعی کیا کرتے تھے۔

افسانہ نما باتوں پر تو زیادہ کان نہیں دھرا جاتا تھا۔ مثلاً ایک رات چند مدہوش یاروں نے مل کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ القرھود کے علاقے میں واقع ایئر پورٹ کے قریبی علاقے پر خلائی مخلوق قبضہ کر رہی ہے۔ تاہم زیادہ تر افواہیں برصغیر سے تعلق رکھنے والی سیاست یا انٹرٹینمنٹ سے وابستہ عالمی شہرت یافتہ شخصیات کے ساتھ پیش آنے والے حادثات سے متعلق ہوتی تھیں۔

17 اگست 1988ء کو بدھ کا دن تھا اور ہمیں ملنے والی غلط فون کالز کی روایت کے سبب ایک ریاست کے سربراہ کی بغیر شیڈول موت کے بارے میں ابتدائی فون کالز کو یہ کہہ کر نظر انداز کیا جاسکتا تھا کہ اس قسم کی کوئی اطلاعات موصول نہیں ہوئی ہیں۔ مگر کالز کا سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، اور پھر بین الاقوامی نیوز انجنسیوں کے ٹیلی پرنٹرز کی گھنٹیاں ایک ساتھ بجنا شروع ہوگئیں۔

میں اپنی کرسی سے اٹھ کر ان پر نظر ڈالنے گیا۔ وہاں میں نے سفید اور سیاہ میں لکھا پایا کہ ‘جنرل ضیاء الحق کو لے جانے والا طیارہ لاپتہ ہوچکا ہے‘۔ جلد ہی یہ تصدیق موصول ہوگئی کہ وہ طیارہ آسمان میں تباہ ہوگیا۔

یہ تقریباً معجزہ تھا۔ پاکستان کے مستقبل پر پڑا ہوا اندھیرے کا دبیز پردہ بالآخر اٹھ گیا تھا۔ مستقبل چاہے جتنا بھی غیر یقینی تھا، مگر پھر بھی ان امکانات سے بھرپور محسوس ہونے لگا جو کچھ منٹ پہلے تک موجود نہیں تھے۔ صرف 2 ماہ قبل ضیاء نے ‘سویلین انتظامیہ’ کے بے وقوفانہ تجربے کو بند کر دیا تھا جو انہوں نے خود ہی چند سال قبل شروع کیا تھا۔ جمہوریت کی جانب سفر کے نرے تصور کو بھی بچانے کی کوئی کوششیں نظر نہیں آ رہی تھیں، جنہیں پہلا دھچکا اس وقت پہنچا تھا جب فوجی آمر نے 1977ء میں 90 دن کے اندر تازہ انتخابات کروانے کے وعدے کی خلاف ورزی کی تھی۔

اس انداز میں دیکھیں تو اگست 1988ء سے پہلے تک کی صورتحال بھی ایسی سیاہ محسوس ہو رہی تھی جیسے 11 سال قبل پاکستانی کی پہلی جمہوری طور پر منتخب حکومت کے وقت یا پھر اس کے صرف 2 سال بعد ذوالفقار علی بھٹو کی عدالت کے ذریعے پھانسی کے وقت۔ مؤخر الذکر کو مکمل طور پر بعد میں آنے والے عفریت کو کھلا چھوڑنے کے الزامات سے بری نہیں کیا جاسکتا، مگر پھر بھی بھٹو کی قابلِ افسوس قسمت کی وجہ سے یہ الزام کچھ حد تک کم ضرور ہوجاتا ہے۔

اپنی حکومت کے آخری ادوار میں ان کی جانب سے مولویوں کی خوشامد نے بلاشبہ بعد میں آنے والی جہل پسندی کے لیے راہ ہموار کی۔ مگر یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ضیاء نے عین اس وقت حملہ کیا جب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان 1977ء کے انتخابات کے متنازع نتائج اور ان کے نتیجے میں ہونے والے اشتعال انگیز مظاہروں سے آگے بڑھنے کا معاہدہ طے پاچکا تھا۔

ضیاء کا مارشل لاء اس قوم کا پہلا مارشل لاء نہیں تھا، مگر یہ اپنی بنیاد پرست سخت گیری میں بے مثال تھا، اور سعودی اور امریکی مدد یافتہ افغان جہاد میں پاکستان کے کردار سے نہ صرف ہیروئن و کلاشنکوف کلچر نے فروغ پایا، بلکہ سرحد کے دونوں اطراف طالبان بھی پھلنے پھولنے لگے۔

سوویت یونین کی جانب سے تباہ کن حد تک گمراہ کن فوجی مہم ختم کرنے کے 3 دہائیوں بعد بھی یہ ملک اب بھی حالتِ جنگ میں ہے اور پاکستان ڈکٹیٹر کے انجام کو پہنچنے کے 30 سال بعد بھی بے ترتیبی کا شکار ہے۔

اسے اتفاق کہیں یا کچھ اور کہ نائب آرمی چیف بہاولپور سے واپس الگ طیارے میں آئے، جہاں ضیاء نے اعلیٰ فوجی عہدیداران اور امریکی سفیر آرنلڈ رافیل کے ہمراہ ٹینکوں کی ایک مشق کا معائنہ کیا تھا۔ مؤخر الذکر اس بدقسمت طیارے میں سوار تھے، جبکہ ان کے علاوہ جنرل اختر عبدالرحمان بھی شامل تھے جو اس سے پہلے آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر افغان جہاد میں اہم کردار ادا کر چکے تھے۔

مگر 1988ء کے اس دن کی سب سے اہم خبر جنرل ضیاء الحق کی موت تھی اور جنرل مرزا اسلم بیگ کے اشارے سے بہت امید ملی کہ انتخابات ہوں گے اور جمہوریت کی طرف واپسی ہوگی۔ شاید ہمیں بہتر اندازہ ہونا چاہیے تھا۔ قومی سیاست اور حتیٰ کہ ہمارا پورا معاشرہ بھی 1958ء سے اب تک ایک خاکی داغ کے ساتھ جی رہا تھا۔ اس داغ کا رنگ 1977ء میں مذہبی ہوگیا اور پھر یہ انمٹ بن گیا۔

اگلے کئی سالوں تک میاں نواز شریف باقاعدگی سے اپنے سیاسی استاد کی برسی منانتے رہے، اور اسٹیبلشمنٹ نے 1988ء میں ان کے لیے سیاسی راستہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا، مگر وہ 2 سال بعد زیادہ کامیاب ہوئے۔ بالآخر نواز شریف کی فوجی قیادت سے نہ بن پائی اور آج وہ جیل میں ہیں، جبکہ وہ کرکٹر جس نے کبھی قومی ٹیم میں واپسی کے لیے ضیاء کی درخواست قبول کی تھی، آج ملک کی کپتانی کرنے والا ہے۔

وہ لاتعداد امیدوں کے محور ہیں، جس طرح 30 سال پہلے بینظیر تھیں۔ مگر خاکی داغ اب بھی لگا ہوا ہے اور کوئی واضح اشارہ موجود نہیں کہ یہ کس چیز سے مٹے گا۔ 17 اگست 1988ء کو ایک انتہائی زہر آلود استبداد سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا وہ احساس ہوسکتا ہے کہ صرف ایک دھوکہ ہو۔ مگر کئی لوگوں کے لیے وہ ایک خوش گوار یاد کی طرح باقی رہے گا اور نامکمل امکانات کی یاد دلاتا رہے گا۔

Exit mobile version