اسلام آباد(رضوان عباسی سے)8اکتوبر 2005کے تباہ کن زلزلے کے13سال مکمل،زلزلہ متاثرہ علاقوں میں700منصوبوں پر کام شروع ہی نہ ہو سکا 1200سرکاری عمارات تکمیل کے مراحل میں جبکہ سینکڑوں تعلیمی ادارے نا مکمل ہی رہ گئے زمہ دارزرائع کے مطابق2005کے زلزلہ میںباغ، پونچھ،مظفر آباد،بالاکوٹ،بٹگرام،شانگلہ ،اور کوہستان کا مجموعی طور پر33ہزارمربع کلومیٹرعلاقہ بری طرح متاثر ہوا تھا جس میں 30ہزار بچوں سمیت77ہزار انسان لقمہ اجل بن گئے تھے۔اس زلزلہ میں زخمیوں کی تعداد 2لاکھ سے زائد شمار کی گئی تھی۔ زلزلے کے بعد غیر ملکی امداد کے وعدے4ارب ڈالر کیے گئے تھے جن میں 3ارب ڈالر وصول ہو سکے تھے۔اس رقم میں ریسکیو،ریلیف،اور تعمیر نوکے لیے غیر سرکاری تنظیموں کی رقوم شامل ہیں۔تعمیر نو کے منصوبے ایرااور نیسپاک کے زیر نگرانی شروع اور مکمل کیے گئے۔زلزلے کے بعد ہنگامی حالت میںایسے تعلیمی اداروں کو بھی دوبارہ تعمیر کے لیے مسمار کیا گیاجو جزوی متاثرہ تھے لیکن ان اداروںپر دوبارہ کام شروع ہی نہ ہوسکا۔آزادکشمیر کا ضلع باغ بھی زلزلے سے شدیدمتاثر ہوا تیرہ سال گزرجانے کے بعد بھی ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر کمپلیکس،ڈسٹرکٹ جیل،دیہی صحت کے درجنوں مراکز،میونسپل کارپوریشن،ترقیاتی ادارہ،درجنوں پرائمری ،ہائی سکولز اور کالجز تعمیر نہ ہوسکے۔174کثیر المنزلہ خطرناک قراردی گئی عمارات مرمتی کے بعد رہائشی اور کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کے جارہے ہیںجو کسی بھی وقت بڑے حادثے کا باعث بن سکتی ہیں۔زلزلے کے بعد نجی شعبہ میں تعمیر ہونے والی عمارات میں بلڈنگ کوڈز کو موثر طور پر مانیٹر نہیں کیا جا سکااور نئی تعمیر کی گئی عمارتوں اور پلازوں میں پارکنگ،اور ہنگامی اخراج کے لیے راستے نہیں بنائے گئے زلزلے کے بعد باغ شہر میں جن جگہوں پر سے تجاوزات ختم کرنے یا راستے کھولنے کا کہا گیا تھا ان تیرہ سالوں میں اس پر الٹاعمل ہوا اور شہر بھر میں تجاوزات کئی گناہ بڑھ گئیںاو راہم راستے سکڑ گئے۔باغ شہر کے لیے تعمیر کی گئی گریٹر واٹر سپلائی سکیم ابھی تک مکمل طور پر آپریشنل نہیں ہو سکی تعمیر نو سے متعلق ایک زمہ دار ادارے کی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اعلان کردہ غیرملکی امداد نہ ملنے اور ریاستی حکومت کو بائی پاس کرنے کی وجہ سے متعدد منصوبے شروع ہی نہیں ہو سکے وسائل کے درست استعمال کا نہ ہونا بھی منصوبوں میں تاخیر کی وجہ ہے۔زرائع کے مطابق فنڈز کی کمی کی وجہ سے ایرااور نیسپاک کے عملے میں بھی کمی کی جارہی ہے،عوامی حلقوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ تعمیر نو کے لیے آنے والے فنڈز کے حسابات کے لیے خصوصی کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ سائل کو درست طور پر استعمال نہ کرنے والوں کا تعین ہو سکے۔