رپورٹ :محمد زاہد اعوان
آزاد کشمیر میں 08 اکتوبر 2005 میں لوگ اپنی اپنی ضرورتوں اور کام کاج میں مصروف تھے بعض کھیتی باڑی میں اور بعض ملازمتوں پر فرائض سر انجام دے رہے تھے اور اکثریت میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچے اور بچیاں اپنے والدین سے پیار بھرے لہجے میں رخصت ہوئے اس آس پر کے شام کو سکول سے گھر واپس لوٹیں گے مگر کسی کو کیا پتہ کہ اب تھوڑی ہی دیر میں ہمارا رب ہمارے اوپر کیا آزمائش نازل کرنے والا ہے ٹھیک 08:52 منٹ پر زمین نے تھرتھرانہ شروع کر دیا اور پل جھپکنے میں دنیا کی نقشہ ہی بدل چکا تھا اور ہر طرف سے چیخ و پکار کی آوازیں سنائی دینے لگیں اور مجھے بچاو مجھے بچاو کی آوازیں سن سن کر کا ن تھک چکے تھے ہر گھر میں زندوں سے زیادہ مردوں کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں آزاد کشمیر دنیا سے کٹ چکا تھا اور ادھر محسوس یہ ہو رہا تھا اللہ رب العزت کی بنائی ہوئی زمین نے ابن آدم کو سبق سکھانے کے لیے اس کے حکم کے مطابق چل رہی ہے اس وقت کے حالات کا تذکرہ کرنا میرے بس کی بات نہیں اور نہ ہی میرئے اندر اتنی ہمت ہے جو میں نے دیکھا اور جو میں نے سنا لاشوں کے ڈھیر اور بے یارو مدد گارخون میں آلودہ اور جسم کاٹے ہوئے کسی کی گردن تن سے جدا اور کسی کا بازو جسم سے جدا عمارتوں کے اندر لاشوں کے ڈھیر دیکھ کر انسان اتنا بے رحم ہو چکا تھا کہ نفسا نفسی کا عالم کسی کو کسی کا کوئی بھی خیال نہیں کون ننگا ہے کس نے کپڑے پہنے ہوئے ہیں ایک بھائی دوسرئے کو بھول گیا رشتہ دار رشتہ داری کو بھی بھول گیا ہر طرف مجھے بچاو مجھے بچاو کی آوازیں آرہی تھیں اور اوپر سے رمضان کے مبارک ایام بھی چل رہے تھے نہ ہی کھانے کے لیے روٹی اور نہ ہی پینے کے لیے پانی اور زلزے کے جھٹکے مسلسل چل رہے تھے اور اوپر سے بارش کہہ رہی تھی مجھے آج ہی برسنا ہے سر چھپانے کے لیے جگہ بھی نہ مل رہی تھی اپنے آپ کو بچاوں یا ان پیاروں کو جو چند لمہے پہلے ہمارے ساتھ باتیں کر رہے تھے لیکن اس وقت ہم سے روٹھ کر لیٹ گئے میں اس پریشانی میں مبتلا تھا کہ میں تو سو بھی نہیں سکتا کیونکہ میرئے پیارے جو ابھی کچھ ہی دیر میرئے ساتھ باتیں کر رہے تھے کچھ تو سامنے پڑے ہیں اور کچھ مکانوں کی دیواروں کے نیچے دھبے ہوئے ہیں ان کو دفن کیسے کیا جائے نہ میرے پاس کفن اور نہ ہی میر ے پاس زمین کھودنے کے لیے سازوسامان بالاآخر میرے دل نے ہمت کی اپنے آپ کو سھبالا دیا اور بغیر روزہ افطار کیے جو لاشیں سامنے پڑی ہوئی تھیں ان کو زمین میں اجتماعی قبروں میں اجتماعی جنازہ کے ساتھ ان ہی کپڑوں میں دفنا دیا لیکن جو مکانوں کے نیچے دھبے ہوئے تھے تین دن بعد نکال کر دفن کیا گیا میرا رابطہ پوری دنیا سے کٹ چکا تھا اس لیے کسی کو پتہ بھی نہیں چل سکا لیکن قربان جاوں اپنے پاکستانی بھائیوں پر جہنوں نے کشمیری بھائیوں کی مدد کے لیے آ پہنچے پھر تو مجھے سہارا ہو گیا کہ ابھی بھی میرا اس دنیا میںکوئی درد بانٹنے والا ہے پھر تو اس زخم لگانے والے نے مرہم لگانے کے لیے بھی بھیج دیے لیکن بات کرتے ہیں حکومتی اقدامات کی تو آج بھی سال بیت گئے مگر آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جہنوں نے اپنے پیاروں کے ساتھ ساتھ اپنا سازوسامان بھی کھو دیا کئی لوگوں کو اس زلزلے نے اوپر سے نیچے لا کر چھوڑ دیا اور کئی کو نیچے سے اوپر لے گیا لیکن لوگ آج بھی بے یارو مدد گار پڑے ہیں تعلیمی ادارے اسی طرح 2005 کا منظر پیش کر رہے ہیں دعوی کیا جاتا ہے کہ ہم نے تعلیمی انقلاب برپا کر دیا ہے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں اگر کسی کو 2005 کے مناظر دیکھنے ہیں تو وہ وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ محمد فاروق حیدر خان کے آبائی حلقہ میں آکر دیکھ سکتا ہے اور جس سکول میں لا تعداد طور پر طلباء اور طالبات کی لاشیں دفن ہیں ہائی سکول بٹنگی ہے اور درجنوں ایسے تعلیمی ادارے ہیں میں کس کس کا ذکر کروں میرے لیے ہر ایک قابل ذکر ہے مگر وقت کی قلت اور مضمون کے بڑا ہوجانے کا بھی خوف ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ میری داستان کو کوئی جگہ ہی نہ دے آج 08 اکتوبر ہے اور سب لوگ اپنے اپنے پیاروں کی یادوں میں اپنے اپنے گھروں میں پریشان ہونگے مگر پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ عرصہ تیرہ (13)) سال بیت جانے کے باوجود بھی لوگ اس دن اپنے پیاروں کی یادوں قبرستان کا رُخ کرتے ہیں اور گھروں میں تلاوت اور فاتحہ خوانی کا اہتمام کر کے ان کے ایصال ثواب کرتے ہیں لیکن افسوس حکومتوں کی جانب سے ان اداروں کو پھر سے فعال بنانے کی عدم دلچسپی پر ہوتا ہے اور تواور مسلم لیگ ن کی حکومت کو عرصہ دوسال بیت گئے مگر وزیر اعظم آزاد کشمیر نے اپنے ہی حلقہ انتخاب میں یونین کونسل چکہامہ درہ بٹنگی کا سکول 2005کی یاد تازہ کرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے اس کی عمارت دوبارہ تعمیر نہیں کر سکی ۔