Site icon روزنامہ کشمیر لنک

مقبوضہ کشمیر میں پیلٹ گنز کا استعمال سے تین ہزار افراد ‘آنکھوں سے محروم ہو گئے ہیں بی بی سی

انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے فائر کی گئی پیلٹ گن سے ایک 19 ماہ کی بچی کی آنکھیں بری طرح زخمی ہوئیں جس سے وادی میں ایک بار پھر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔منگل کو کشمیر کے جنوبی ضلع شوپیاں میں حبا جان ہسپتال سے گھر واپس آئیں تو متجسس ہمسائے جن میں بہت سارے بچے بھی شامل تھے، چھروں کا نشانہ بننے والی کم عمر بچی کو دیکھنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ایک ہمسائی امینہ راتھر نے حبا کے گالوں کو پیار کرتے ہوئے کہا کہ ‘تمھیں کیا ہوگیا ہے، میری گڑیا۔”مجھے چھوڑو’، حبا چلاتے ہوئے اپنے زخمی دائیں آنکھ کو اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے ملنے کی کوشش کرنے لگی۔ ان کی ماں مرسلہ جان نے اس کے ہاتھ پیچھے ہٹائے۔چند لمحے بعد، اس کی ماں نے مہمانوں سے بھرے کمرے میں اعلان کیا کہ اس کی بیٹی کی بدھ کو ایک اور سرجری ہوگی۔ اس اعلان سے کمرے میں ٹھنڈی آہیں اور صحت یابی کی دعائیں بلند ہوئیں۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ حنا کے ابھی بہت آپریشن ہوں گے۔حبا کا جس ہسپتال میں علاج ہوا اس کے شعبہ امراض چشم کے سربراہ سلیم تاک نے بی بی سی کو بتایا کہ دوسری سرجری کے بعد ہی ہم آنکھ کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق انڈیا اور پاکستان دونوں کشمیر پر دعوی کرتے ہیں اور دونوں ممالک نے اس کے کچھ حصوں پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ انڈیا پاکستان پر اس خطے میں بدامنی کا الزام عائد کرتا ہے جبکہ اسلام آباد اس کی تردید کرتا رہا ہے۔حالیہ برسوں میں مظاہرین پر پیلٹ گنز کے استعمال سے ایک اندازے کے مطابق خطے میں تقریبا تین ہزار افراد ‘آنکھوں سے محروم ہوئے ہیں، مقامی افراد اسے ‘مردہ آنکھ کی وبا’ قرار دیتے ہیں۔ عوامی غصے کے باوجود انڈین سکیورٹی فورسز نے پیلٹ گنز کے استعمال میں اضافہ کیا ہے۔اتوار کو حبا اپنے گھر پر اپنے بڑے بھائی کے ساتھ کھیل رہی تھی جب گاں کے افراد کا سکیورٹی فورسز سے تصادم ہوا، جب قریبی گاں کپران میں چھ حریت پسند باغی پھنس گئے تھے۔ ان باغیوں کو بعد میں مار دیا گیا تھا۔علاقے میں انڈیا مخالف نعرے بازی ہوئی اور سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس پھینکی۔ حبا کی ماں نے بتایا’میں ناشتہ بنانے کی تیاری کر رہی تھی جب میں نے بری طرح کھانسنا شروع کر دیا۔ آنسو گیس کے شیلز کا سرمئی دھواں گھر میں داخل ہو چکا تھا’، حبا کی ماں اس کے گھر میں دو بچوں کے ساتھ اکیلی تھیں، انھوں نے بتایا کہ ‘ ہر گزرتے ہوئے منٹ کے ساتھ ہوا مزید سانس لینے کے قابل نہیں تھی۔’انھوں نے بتایا کہ ‘حبا نے قے کرنا شروع کر دی اور میرے پانچ سالہ بیٹے کو سانس لینے میں مشکل ہو رہی تھی۔’بچوں کی حالت خراب سے خراب تر ہونے پر مرسلہ جان نے حبا کو بانہوں میں اٹھا لیا، اپنے بیٹے شہادت کا ہاتھ پکڑا اور باہر بھاگیں، لیکن وہ افراتقری میں پھنس گئیں۔مرسلہ جان نے بی بی سی کو بتایا: ‘میں نے فورسز کو اپنی جانب فائرنگ کرتے دیکھا تو میں اپنے بیٹے کو اپنے پیچھے کر لیا اور حبا کو منہ اپنے ہاتھ سے چھپا لیا۔

Exit mobile version