Site icon روزنامہ کشمیر لنک

پاکپتن اراضی الاٹمنٹ کیس’ تحقیقات کرانے کے طریقہ کار بارے نواز شریف سے ایک ہفتہ میں جواب طلب

اسلام آباد (کشمیر لنک نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکپتن اراضی الاٹمنٹ کیس کی تحقیقات کرانے کے طریقہ کار کے حوالہ سے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے ایک ہفتہ میں جواب طلب کر لیا۔عدالت نے کہا ہے کہ تحقیقات ہونی چاہیے یا نہیں اور کس انداز میں ہونی چاہیے نواز شریف اپنے وکلاء سے مشورہ کر کے عدالت کو آگاہ کریں جبکہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ چاہتا ہوں کہ 2بار کے وزیراعلی اور 3 بار کے وزیراعظم کلیئر ہوں۔عدالت نے نواز شریف کو آئندہ حاضری سے استثنیٰ دے دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے وکیل کے زریعہ اپنا جواب جمع کروا دیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میںجسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پاکپتن اراضی الاٹمنٹ از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ نواز شریف ذاتی حیثیت میں طلب کرنے پر عدالت میں پیش ہو گئے۔ جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ میاں صاحب کہاں ہیں۔ اس پر نواز شریف کھڑے ہوئے اور کہا کہ میں عدالت میں موجود ہوں اور وہ پھر روسٹرم پر آ گئے۔ چیف جسٹس نے نواز شریف سے استفسار کیا کہ آپ کا اپنے تحریری جواب پر کیا موقف ہے۔ اس پر نواز شریف کا کہنا تھا کہ یہ 32 سال پرانا معاملہ ہیمیرے علم میں ایسا کوئی واقعہ نہیں۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ میری یاد داشت میں ایسا کوئی حکم نہیں جو میرے دفتر سے جاری ہوا ہو۔ چیف جسٹس کا نواز شریف سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پہلے آپ کو کیس کے بیک گرائونڈ کے بارے بتا دئوں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اوقاف پراپرٹی کے دعویداروں نے عدالت میںکیس کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے بھی کہہ دیا زمین محکمہ اوقاف کی ہے۔ چیف جسٹس نے نواز شریف سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف زمین نجی ملکیت میں دی۔ اگر آپ نے اوقاف کی زمین نجی ملکیت میں نہیں دی تو آپ بری الذمہ ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میاں صاحب آپ پر الزام ہے کہ آپ نے محکمہ اوقاف کا نوٹیفیکیشن ڈی نوٹیفائی کیا۔ نواز شریف کا کہنا تھا مجھے زمین کہ الاٹمنٹ کے حوالہ سے نہیں پتہ اور نہ ہی یہ میرا حکم تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے نواز شریف سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کئی ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں کہ آپ نے کہا اور آپ کے سیکرٹری کرتے رہے۔فواد حسن فواد کو بھی آپ اسی طرح آرڈر دیتے تھے اور وہ آپ کے حکم پر عملدرآمد کرتے تھے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کہا گیا آپ کے حکم پر اراضی دیوان قطب الدین کو منتقل کی گئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معاملہ پرسابق چیف جسٹس آف پاکستان انو ظہیر جمالی نے2015میں از خود نوٹس لیا تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دو بار وزیر اعلی اور تین باروزیر اعظم رہنے والے کو کلیئر ہونا چاہیے۔ آپ بہت فعال وزیر اعلی رہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس معاملہ پر جے آئی ٹیبنا دیتے ہیں۔ اس پر نواز شریف نے کہا جے آئی ٹی نہیں کچھ اور بنا دیا جائے جے آئی ٹی کے حوالہ سے میرا تجربہ اچھا نہیں رہا۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ ہی کو منصف بنا دیتے ہیں اور آپ اس معاملہ کی تحقیقات خود کریں اور ہمیں بتا دیں۔ اس پر نواز شریف کا کہنا تھا بہت اچھا بھائی بہت اچھا۔ چیف جسٹس نے نواز شریف سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہفتے میں بتا دیں کس ادارے سے تحقیقات کروائی جائیں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت ایک ہفتے تک ملتوی کر دی۔ عدالت نے نواز شریف سے کہا کہ وہ آئندہ سماعت پر عدالت نہ آئیں اور بزریعہ وکیل اپنا موقف بتا دیں۔ قبل ازیں نواز شریف کی سپریم کورٹ آمد کے موقع پر پاکستان مسلم لیگ(ن) کے چئیرمین اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجا محمد ظفرالحق ، سردار ایاز صادق، خواجہ محمد آصف، رانا ثناء اللہ خان،(ن) لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب،سینیٹر چوہدری تنویر خان، سینیٹر بیرسٹر جاوید عباسی، سینیٹر ڈاکٹر آصف کرمانی، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، ملک ابرار احمد، ملک شکیل اعوان اور دیگر (ن) لیگی رہنما بھی نواز شریف کے ہمراہ موجود تھے۔

Exit mobile version