جنوبی کشمیر کے پلوامہ قصبے میں نہتے شہریوں کے قتل پر پیر کوبھی مقبوضہ وادی سوگوار رہی اور اس دوران ماتم جیسا ماحول رہا۔ہمہ گیر ہڑتال سے وادی کشمیر اور خطہ چناب اور بانڈی پورہ ،بارہمولہ، کپوارہ،گاندربل،کولگام، شوپیاں،بڈگام اضلاع میں میں روز مرہ کی زندگی ٹھپ ہو کر رہ گئی اور سڑکیں سنسان رہیں۔ہڑتال کی اپیل سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور محمدیاسین ملک پر مشتمل مزاحتمی قیادت نے کی تھی۔۔ہڑتال کے دوران سری نگر کے پائین شہر کے بیشتر حصوں میں کرفیو جیسی پابندیاں نافذ رہیں جبکہ ضلع پلوامہ میں دفعہ 144 سختی سے نافذ العمل رہا۔وادی میں ریل اور انٹرنیٹ سروس کو منقطع رکھا گیا۔ ہڑتال سے جہاں دوکانیں اور کاروباری اداروں کے علاوہ تجارتی مراکز مقفل رہے اور بازار صحرائی مناظر پیش کررہے تھے،وہیں مسافربردار گاڑیوں کے پہیہ بھی جام رہے،اور سڑکوں پر ٹریفک کی نقل و حمل مکمل طور پر بند رہی۔ہمہ گیر ہڑتال سے سرینگر کے علاوہ وادی کے دیگر اضلاع اور تحاصیل صدر مقامات میں تمام ہر طرح کی سرگرمیاں معطل رہیں۔پائین شہر میں پانچ پولیس تھانوں ایم آر گنج، نوہٹہ، خانیار ، رعناواری اور صفا کدل کے تحت آنے والے علاقوں میں دفعہ 144 کے تحت پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ تاہم انتظامیہ کے اس دعوے کے برخلاف پائین شہر کی زمینی صورتحال بالکل مختلف نظر آئی۔ سیکورٹی فورسز نے بیشتر سڑکوں کو خاردار تار سے سیل کردیا تھا جبکہ لوگوں کو اپنے گھروں تک ہی محدود رہنے کے لئے کہا گیا۔ سری نگر کے جن علاقوں میں کرفیو جیسی پابندیاں نافذ ر ہیں، ان میں امن وامان کی برقراری کے لئے سینکڑوں کی تعداد میں ریاستی پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کے اہلکار تعینات کئے گئے تھے۔ نالہ مار روڑ کو ایک بار پھر خاردار تاروں سے سیل کردیا گیا تھا۔ پلوامہ میں ماتم کا ماحول رہا۔ہر طرف ماتم جیسی خاموشی چھائی رہی اور لوگ دم بخود گھروں میں بیٹھے رہے۔ نہ کہیں کوئی دوکان کھلی تھی نہ کوئی گاڑی چل رہی تھی۔قصبہ کے علاوہ کریم آباد،کاکہ پورہ، سانبورہ، نیوہ، پاہو، پنگلنہ، قوئل، راجپورہ، مورن ،لاجورہ، پاریگام، وانپورہ، خندہ مں ہر طرف اداسی چھائی رہی۔اسی طرح کا ماحول شوپیان میں بھی رہا۔ قصبہ میں مکمل طور پر خاموشی رہی۔کہیں انسان زات نظر نہیں آرہی تھی