اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے گرفتار ملزمان کی جانب سے اعتراف جرم کیے جانے کے بعد وکیل درخواست گزار کو کیس ٹرائل کی ایبٹ آباد منتقلی کے لیے ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کوہستان ویڈیو اسکینڈل کیس نمٹادیا۔واضح رہے کہ 2012 میں کوہستان سے موبائل فون کے ذریعے بنی ایک ویڈیو منظرعام پر آئی تھی، جس میں تحصیل پالس کی یونین کونسل گدار کے دو بھائیوں کو رقص کرتے اور 5 لڑکیوں کو تالیاں بجاتے دیکھا گیا تھا، جس کے بعد مبینہ طور پر لڑکیوں کو قتل کر دیا گیا تھا جبکہ ویڈیو میں نظر آنے والے لڑکوں کے 3 بھائیوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔تقریباً 6 برس تک یہ کیس چلنے کے بعد گذشتہ ماہ 3 دسمبر کو اُس وقت ڈراپ سین ہوا جب 4 گرفتار ملزمان نے لڑکیوں کے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا تھا کہ 3 لڑکیوں کو فائرنگ کرکے قتل کرنے کے بعد اُن کی لاشیں نالہ چوڑ میں بہا دی گئی تھیں جبکہ 2 لڑکیاں ابھی زندہ ہیں۔اس کیس کا ٹرائل کوہستان کی عدالت میں جاری تھا جبکہ سپریم کورٹ نے بھی اس کا نوٹس لے رکھا تھا۔آج کوہستان ویڈیو اسکینڈل کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی۔سماعت کے دوران صوبائی حکومت کے نمائندے نے بتایا کہ کوہستان اسکینڈل کی ویڈیو جعلی نہیں تھی۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ویڈیو میں نظر آنے والی 3 لڑکیوں کو قتل کردیا گیا اور 2 لڑکیوں نے ملزمان کے خلاف بیان دیا۔انہوں نے بتایا کہ تمام 9 ملزمان گرفتار ہوچکے ہیں جبکہ ایک ملزم شمس الدین قتل ہو چکا ہے۔درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ گرفتار ملزمان کے نام ایف آئی آر میں نہیں ہیں اور ملزمان نے سارا ملبہ ہلاک ساتھی پر ڈال دیا ہے۔