اسلام آباد: سپریم کورٹ نے زیر زمین پانی کے استعمال کے کیس میں صوبوں کی جانب سے ٹیکس لگانے سے متعلق رپورٹس مسترد کردیں۔چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی تو اس موقع پر زیر زمین پانی کے استعمال پر صوبوں کی جانب سے ٹیکس لگانے میں پیش رفت نہ ہونے پر چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔عدالت نے پانی سے متعلق صوبوں کی طرف سے کیے گئے اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ‘بار بار کہا ہے کہ پانی سے متعلق جنگی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے، کوئٹہ میں زیر زمین پانی 12 سو فٹ پر چلا گیا ہے اور گوادر میں پینے کا پانی دستیاب نہیں ہو رہا’۔سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ ابھی تک صوبوں کی جانب سے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ ہی اس حوالے سے آگہی مہم شروع ہوسکی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ‘پانی نایاب ہونا شروع ہو چکا،سونے کی قیمت پر بھی نہیں ملے گا، نہ آپ لوگوں کی نیت ہے نہ صلاحیت، میں کہتا ہوں تو پھر خبر لگ جاتی ہے’۔چیف جسٹس نے استفسار کیا منرل واٹر کمپنیاں پانی استعمال کر رہی ہیں، بتایا جائے صوبوں اور وفاق نے کیا میکینزم بنایا ہے۔اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا وزیراعلیٰ اور کابینہ کو سمری بھجوا دی ہے جب کہ سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ پانی کی قیمت اور استعمال سے متعلق رپورٹ دی ہے جس میں چند تجاویز پیش کی گئیں ہیں۔