اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں تاخیر پر خصوصی عدالت سے رپورٹ کرلی جب سابق صدر کی وطن واپسی کے حوالے سے اقدامات پر حکومت سے بھی جواب طلب کیا گیا ہے۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی نظرثانی درخواست کی سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیےکہ یہ تو کیس بھی درج ہو گیا اور ٹرائل ہو رہا ہے، اس پر درخواست گزار توفیق آصف نے کہا کہ مشرف ملک سے باہر ہیں، ٹرائل رکا ہوا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حکومت نے پرویز مشرف کو بلانے کیلئے اب تک کیا کیا ہے؟ کہا گیا کہ عدالت نے باہر جانے دیا، عدالت نے نہیں حکومت نے جانے دیا تھا، عدالت نے تو حکومت پر بات ڈالی تھی، عدالتی فیصلے میں پرویز مشرف کو بیرون ملک بھیجنے کا نہیں کہا گیا تھا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر پرویز مشرف واپس نہیں آتے تو اسکائپ پر بیان ریکارڈ کرا دیں، مشرف کا بیان وڈیو لنک کے ذریعے ہوسکتا ہے، اگر پھر بھی بیان نہیں دیتے تو سمجھا جائے گاکہ انکاری ہوگئے ہیں، اسپیشل عدالت ملزم کے ہر بیان کے آگے انکار لکھ سکتی ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ کیا حکومت کسی ملزم کے ہاتھوں یرغمال بن جائے، کیا کوئی ملزم نہ آئے تو عدالت بے بس ہوجاتی ہے، خصوصی عدالت کو فوری کارروائی کا حکم دیا گیا تھا۔عدالت نے کہا کہ مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ درج ہے، ٹرائل کے لیے خصوصی عدالت بنائی گئی ہے، عبدالمجید ڈوگر کے مقدمے میں خصوصی عدالت کا جلد از جلد ٹرائل کرنےکی ہدایت کی گئی تھی، مشرف کے ملک میں نا ہونے کی وجہ سے ٹرائل رکا ہوا ہے۔