Site icon روزنامہ کشمیر لنک

وادی کشمیر میںقدرتی جھیلوں کی تباہی

دنیا کے خوبصورت ترین علاقوں میں وادی کشمیر کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔پہلی مرتبہ آنے والا کوئی بھی شخص کشمیر کی منفرد حسین وادی کو دیکھ کر مبہوت ہو کربے اختیار قدرت کے اس شاہکار کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ پیر پنجال اور ہمالیہ کے بلند و بالاپہاڑوں کے درمیان میدانی علاقے کی ہیت میں واقع وادی کشمیر کی لمبائی تقریبا135کلومیٹر اورچوڑائی تقریبا 32 کلومیٹر ہے ۔وادی کشمیر کا رقبہ6.131مربع میل ہے۔چشموں ،جھیلوں ،ندی ،نالوں،دریائوںپر مشتمل وادی کشمیر، جہاں کی مسحور کن،قوت بخش آب و ہوا کسی بھی انسان کو جنت کے نظارے دکھاتی ہے۔

یوں تو مقبوضہ کشمیر میں چوبیس معروف جھیلیںموجود ہیں تاہم وادی کشمیر کے میدانی علاقے کی تین جھیلیں سیاحتی حوالے سے خصوصی اہمیت کی حامل ہیں جہاں ہر سال بڑی تعداد میں لوگ سیر کرنے اور قدرت کے شاہکار دیکھنے آتے ہیں۔ان میں جھیل ڈل کو سرینگر کی خوبصورتی کے حوالے سے مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ساڑھے سات کلومیٹر طویل اور ساڑھے تین کلومیٹر چوڑی جھیل ڈل وادی کشمیر کی دوسری بڑی جھیل ہے۔ڈل کے عقب میں زبر ون پہاڑ واقع ہے۔

ڈل جھیل سے ملحقہ آبادیوں، ہائوس بوٹس کے گندے پانی اور خوردرو پودوں کی وجہ سے سے جھیل ڈل کو آلودگی کے خطرات کا سامنا ہے تاہم وادی کشمیر کے سب سے بڑے سیاحتی مقام ہونے کی وجہ سے ڈل جھیل کی صفائی اور اسے آلودگی سے بچانے کے لئے کام جاری رہتا ہے۔تاہم نامکمل کوششوں کی وجہ سے ابھی تک اس حوالے سے مکمل کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔وادی کشمیر میں سبھی چشموں،جھیلوں،ندی ،نالوں کے آبی ذخیرے تیزی سے آلودہ ہو رہے ہیں۔قریبی آبادیوں کے گندے پانی کی نکاسی اور جھیل کنارے گندگی پھنکنے کے چلن سے وادی کشمیر کی جھیلیں آلودگی کا شکار ہوتے ہوئے اپنی بقاء کے خطرات سے دوچار ہیں۔

کشمیر کی سب سے بڑی جھیل ولر بانڈی پور میں واقع ہے ۔یہ سولہ کلومیٹر لمبی اور تقریبا ساڑھے نو کلومیٹر چوڑی ہے۔اس کا شمار ایشیا کی میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیلوں میں ہوتا ہے۔اس جھیل سے پانی دریائے جہلم میں جاتا ہے۔اس جھیل کے کئی حصے ،جھیل میں پھینکی جانے والی گندگی کے سبب دلدل نما زمیں میں تبدیل ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔اس سے ولر جھیل اپنے وسیع رقبے سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔

مانسبل جھیل بے شمار چشموں کے پانی پر مشتمل ہے جو جھیل کی تہہ میں واقع ہیں۔جھروکہ باغ میں جھیل کے کنارے کم پانی کی تہہ میں چشموں کا پھوٹتا پانی ایک خوبصورت منظر پیش کرتا ہے۔ مانسبل کا شمار دنیا کی خوبصورت ترین چھ جھیلوں میں کیا جا تاہے۔گزشتہ دنوں ” ورلڈ واٹر ڈے” کے موقع پر مقبوضہ کشمیر میں قدرتی ماحولیات کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی ایک نجی تنظیم ” سوشل کنسرن گروپ” نے سرینگر سے تقریبا26کلومیٹر کے فاصلے پہ تاریخی قصبے صفا پور کے قریب واقع مانسبل جھیل میں آلودگی کے حوالے سے ایک مہم شروع کی۔رضاکار نوجوانوں نے کشتیوں میں بیٹھ کر مانسبل جھیل میں ملحقہ علاقوں سے گندے پانی کے ساتھ بہہ کر آنے والے شاپنگ بیگ و دیگر اشیاء کو جھیل سے نکالا اور آبادیوں سے ملحقہ جھیل کے کنارے کے علاقوں سے گندگی اٹھائی ۔اس موقع پر وڈیو بھی بنائی گئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح قریبی آبادیوں سے آنے والی گندگی سے مانسبل جھیل غلاظت میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔اس خصوصی مہم کے حوالے سے ایک تقریب بھی منعقد کی گئی جس میں مانسبل جھیل کو آلودگی سے بچانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس کے نقصانات کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ بھی کیا گیا۔اس حوالے سے قریبی آبادیوں میں آگاہی کے حوالے سے بھی کام کیا گیا۔مانسبل جھیل کو بچانے کے لئے سب سے ضروری یہ ہے کہ ملحقہ آبادیوں میں سیوریج کا نظام یوں قائم کیا جائے کہ آبادیوں کا گندہ پانی جھیل کو آلودہ نہ کرسکے۔ جھیل ڈل کی صفائی اور آلودگی سے بچانے کے حوالے سے کی جانے والی سرکاری کوششیں ولر اور مانسبل جھیل کے معاملے میں قطعی طور پر غیر موثر نظر آ تی ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں پانی کے قدرتی ذخائر انسانی آلودگی کی وجہ سے شدید نقصان سے دوچار ہیں ۔پانی کے ذخائر کی آلودگی سے شدید متاثر ہونے کی اس صورتحال کے نقصانات مختلف نوعیت کے ہیں جس سے یہاں کی انسانی زندگی پر بھی تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔سیاحت،موسمیاتی تبدیلی کے علاوہ اس کا سب سے بڑا نقصان یہاں کے انسانوں کے لئے ہے جو انہی وجوہات سے مختلف سنگین بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیںاور اس عمل میں دن بدن تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔وادی کشمیر میں انسانی آبادیوں سے اخراج ہونے والا گندہ پانی قریبی جھیلوں،ندی ،نالوں میں ہی ڈالا جاتا ہے۔آبادیوں میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے اب اس طریقہ کار سے مختلف نوعیت کے سنگین مسائل اور خطرات درپیش ہیں جو قدرتی ماحول کے علاوہ انسانوں کے لئے بھی تباہ کن نتائج کے حامل ہیں۔

وادی کشمیر میں آبادیوں سے قریبی جھیلوں،ندی ،نالوں میں گندے پانی کے اخراج کا سلسہ اب مستقل طور پر بند کرنا ہو گا۔آگاہی کی ہمہ گیر مہم کے ساتھ ساتھ یہ بات بنیادی اہمیت کی حامل ہے کہ وادی کشمیر کے قصبوں اور دیہاتوں میں سیوریج سسٹم اس طور پہ تبدیل کیا جائے کہ آبادیوں کا گندہ پانی قریبی جھیلوں،ندی ،نالوں میں شامل نہ ہو سکے۔

2012ء میں اپنے ایک عزیز کے ساتھ پہلگام گیا تو انہوں نے بتایا کہ دس سال پہلے تک پک نک پہ جاتے ہوئے کبھی ساتھ پانی نہیں لے کر جاتے تھے کیونکہ ہر جگہ چشموں ،ندی کا صاف پانی میسر ہو تا تھا جبکہ اب وادی کشمیر مین کہیں بھی چلے جائیں، پینے کا پانی اپنے ساتھ لے کر جانا لازمی ہو چکا ہے۔

اطہر مسعود وانی
03335176429

Exit mobile version