Site icon روزنامہ کشمیر لنک

اسٹیبلشمنٹ کے منصوبے اور حکومت کوہدایات

اطہر مسعود وانی

سوشل میڈیا پہ شخصیات کی رائے کے علاوہ مختلف عناصر کی طرف سے پروپیگنڈہ مہم بھی نظر آتی ہے۔” یو ٹیوب ” پہ نشر ہونے والے ایسے ہی ایک ویب ٹی وی ”حقیقت ” کی ایک نئی وڈیو رپورٹ دیکھی اور سنی تو ضروری محسوس ہوا کہ اس بارے میں شہریوں کو بتایا جائے کہ مخصوص ” مائینڈ سیٹ” کس طرح پاکستان کو ” من مانے” راستوں پہ چلانے کے اہتمام کی فکر میں ہے اور کس طرح ملک کو ہر شعبے میں بری طرح نقصان پہنچانے کی صورتحال کو پاکستان کے لئے” اچھا” قرار دیئے جانے کے پروپیگنڈے کے ذریعے عام شہریوں کے ذہنوں کو غلط خطوط کی جانب راغب کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہیں۔ یعنی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے ذریعے ملک میں احتساب کے لئے ‘ ٹیکنو کریٹ’ حکومت اور اس کے بعد اسلامی صدارتی نظام کے لئے پر تول رہی ہے۔اس سے یوں بھی محسوس ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو ” نئے پاکستان” کا قائد اعظم قرار دینے کی بھی کوشش میں ہے۔
یہ معلوم کیا جانا بھی اہم ہے کہ سوشل میڈیا پہ اس طرح کی وڈیوز تیار کرنے کی ” قومی خدمت” قومی خزانے سے کی جا رہی ہے یا کسی غیر ملکی امداد سے ایسا کیا جا رہا ہے۔وڈیو رپورٹ کا تحکمانہ انداز یہ واضح کر دیتا ہے کہ یہ وڈیو پاکستان میں کس کی نمائندگی کر رہی ہے اور اس میںکس کے منصوبے اورخواہشات بیان کئے جا رہے ہیں۔ان منصوبوں سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ وسیع پیمانے پر مذہبی جماعتوں کا کارڈ کھیلنے کی تیاری کر رہی ہے؟
اگر واقعی پاکستان کا حقیقی مفاد پیش نظر ہے تو ملکی اداروں کو عوام کی بات سننی ہی ہو گی،نا صرف سننی ہو گی بلکہ عوامی امنگوں اور خواہشات کو ہی ملک کی پالیسی کے طور پر تسلیم کرنا ہو گا۔یہ وہی عوام ہیں جس میں سے اداروں ،حکومت،تمام سرکاری تنخواہ داران کو افرادی قوت مہیا ہوتی ہے۔یعنی ان سب کا” کیچمنٹ ” ایریا عوام ہی ہیں۔لہذا عوا م کو کمتر،مشکوک،ناقابل اعتبار،نااہل سمجھتے ہوئے دوسرے ،تیسرے درجے کی طرح کا برتائو پاکستان کی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے۔ملک میں سیاسی استحکام کے تقاضے پورے نہ کرنے کی صورت پاکستان میں بہتری تو دور اس کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔یہ وڈیو رپورٹ سنتے ہوئے بے اختیار محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں کسی دشمن کی کیا ضرورت ہے،ہم خود کو تباہ و برباد کرنے کے لئے خود ہی کافی معلوم ہوتے ہیں۔
قارئین کی دلچسپی کے پیش نظر اس وڈیو کا مکمل متن پیش خدمت ہے تاکہ قائرین ان ” نیک ارادوں” اور طرز تکلم کو دیکھتے ہوئے خود اس ”دانشوری” کا جائزہ لے سکیں ۔
” اسلام علیکم ۔ ہر لحاظ سے پاکستان اگلی منزل کی طر ف جا رہا ہے،چاہے پاکستان کے اندر سے تیل گیس کے ذخائر نکل رہے ہوں ،چاہے پاکستان کا جے ایف17 تھنڈر یا پاکستان کے دنیا بھر سے رابطے ،امن آنا،پی ایس ایل کا پاکستان کے اندر آنا، پاکستان میں کرپشن کا لیول نیچے گرنا،پاکستان کے اندر میڈیا کنٹرول میں ہونا۔
کافی ساری چیزیں اپنی بہتری کی طرف جا رہی ہیںلیکن اس کے باوجود یہ نظام نہیں چل رہا،اور یہ حکومت عمران خان جس طرح چلانا چا رہے تھے وہ نہیںچل پا رہی۔دیکھئے اب عمران خان کے لئے بالکل ‘ڈو اینڈ ڈائی’ کا وقت قریب سے قریب تر آتا جا رہا ہے،اس میں عمران خان پر تنقید ہر لحاظ سے ہو رہی ہے اور عمران خان کی تعریف بھی ہر لحاظ سے ہو رہی ہے۔ایک تو پاکستان کے اندر حالیہ جو سروے آیا ہے اس میں پتہ چلا ہے کہ پاکستانی قوم ایشیا کے اندر خاص طور پر سائوتھ ایشیا کے اندر بہت زیادہ آگے جا رہی ہے خوشی اور امید کے حوالے سے۔یہ ایک سائین ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر ناامیدی ختم ہو رہی ہے۔اب الحمداللہ سوشل میڈیا کا اس میں بڑا کردار ہے۔حقیقت ٹی وی آپ لوگوں کے ساتھ جڑا ہے ،ہم لوگ دن رات محنت کر رہے ہیں کہ اس میڈیا نے جو مایوسی پھیلائی ہے ،اس سے ہم دور ہٹیں۔
لیکن ایک پوئنٹ آف ویو ہے کہ عمران خان اس حکومت سے خوش نہیں ہیں اور جس طرح وہ چلانا چارہے ہیں،ویسی نہیں چل رہیں،باوجود اس کے کہ وہ پندرہ گھنٹے کا م کر رہے ہیں۔دیکھئے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کھلم کھلا یہ بات کہہ دی ہے کہ یہاں پر ہمارا نظام خراب ہے اور ہم ذمہ دار نہیں ہیںکہ انصاف لیٹ ملتا ہے۔آپ جانتے ہیں کہ جسٹس سعید کھوسہ نے چار دن کے اندر قتل کیس کے مقدموں کا فیصلہ کرنے کے لئے جو نیا نظام لانے کی بات کی ہے وہ ایک الگ ہے۔اوراب یہ سارا کچھ ،سب کچھ عمران خان کے کندھوں پر ہے کہ وہ نظام کیسے چلائیں گے۔اور وہ اسمبلیاں توڑنے جا رہے ہیں یا نہیں جا رہے ،کب تک توڑیں گے ،اس کو آپ اچھی طرح سمجھ لیجئے۔
دیکھئے جب عمران خان کی حکومت آئی تھی تو عمران خان کو اصل میںسب سے زیادہ مسئلہ یہ ہو رہا تھا کہ ان کو ایم کیو ایم کے پاس جانا پڑا،ق لیگ کے پاس جانا پڑا کہ وہ ڈاکو لوگ تھے۔اگر عمران خان اس وقت یہ کام نہ کرتے تو شاید ان کے ہاتھ آج اقتدار نہ ہوتا اور وہی گھسی پٹی جمہوریت ،وہی ن لیگ ،وہی پیپلز پارٹی۔یہ معاملات اس طرح آگے نہ چلتے جس طرح آج دنیا پاکستان کے آگے پیچھے گھوم رہی ہے خاص کر عرب کنٹریز۔
لیکن معاملہ یہ ہے کہ عمران خان کا پلان تھا کہ میں آٹھ دس مہینے کے اندر اچھی پرفارمنس دوں گا ،اس لیول پر آجائوں گا کہ اس کے بعد میں خود ہی الیکشن کروانے کے لئے کال کروں گا اور میں ٹو تھرڈ میجورٹی کے ساتھ آئوں گا ،پھر نئے قوانین لے کر آئوں گا یہ سار اکچھ لے کر آئوں گا۔لیکن عمران خان کو سمجھ آگئی کہ پاکستان کے اندر مافیا جو بیٹھا ہو ا ہے چاہے وہ پارلیمنٹ میں ہو ،ان کی وزارتوں میں ہو،چاہے وہ کسی کو ہی لالے امتیاز دینے کے حوالے سے ہو،ہر جگہ ایک مافیا بیٹھا ہو ا ہے جو اپنی من پسند کے فیصلے کرے۔بیورو کریسی بالکل عمران خان کو تنگ کر رہی ہے اور ہر لحاظ سے کر رہی ہے۔
اب اس ساری صورتحال کے اندر کیا ہو گا ،الیکشن؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،الیکشن کیسے ہو سکتا ہے؟ آپ کی کیا آدھی فوج الیکشن پر ڈیپلائے ہو گی، تو کیا ہو گا زیادہ سے زیادہ ،وہی الیکشن میں آپ دس بارہ سیٹیں زیادہ جیت لیں گے،آپ اس نظام میں بہتری نہیں لا سکتے۔اب آپ اس کام کو اس طرح بھی نہیں کر سکتے کہ آپ الیکشن کرائیں گے اور پاکستان کی آدھی فوج ادھر آ جائے گی اور ادھر انڈیا کو باڈر پر موقع مل جائے گا،افغانستان باڈر پر موقع ملے گا،ایسا بالکل بھی نہیں ہونے جا رہا۔عمران خان کے لئے راستہ کیا بچتا ہے؟ عمران خان سیریس ہو کر سوچ رہے ہیں کہ اب اس نظام کا کچھ کرنا ہو گایا مجھے کچھ بہتری کی طر ف جانا ہو گا۔
دیکھئے پاکستان کی ‘الٹی میٹلی ‘ جو منزل ہے وہ ہے اسلامی صدارتی نظام ،اور پھر جب اللہ پاک ایسے لوگ بھیج دے گا جو اس کا نظام نافذ کریں گے تو پھر ہم اس ‘ لیول’ پر پہنچ جائیں گے جہاں پر آخری خلفائے راشدین کا نظام اور ہم اس طرف بڑہیں گے،اس میں ابھی بہت سال ہیں لیکن اس سے پہلے ہم اسلامی صدارتی نظام کی طرف جائیں گے۔لیکن یہ اسلامی صدارتی نظام بھی تب آئے گا،اس سے پہلے ایک ‘ٹیکنو کریٹس ‘ کی حکومت آئے گی جو عمران خان لانا چاہیں گے کیونکہ وہ آ کر حکومت ‘ اسٹیبل’ کرے گی پھر ہی آپ اگلے لیول پر جا سکتے ہیں۔ا س طرح تو آپ اسلامی صدارتی نظام کی طرف نہیں جا سکتے۔
اس کے لئے عمران خان اسمبلی توڑتے ہیں یا سارا کچھ نظام لپیٹتے ہیں،کچھ ایک ٹیم آئے گی،وہ ٹیم آ کر ‘سٹیبل’ کرے گی،ان سب کا احتساب کرے گی ،پھر اس طرف جائیں گے۔عمران خان اب اس طرح دیکھ رہے ہیں کہ معاملات جو ہیں وہ فٹ نہیں بیٹھ رہے باوجود اس کے کہ پاکستان ترقی کی جانب جا رہا ہے۔یعنی اگر آپ اندازہ کر لیں کہ اس وقت ڈالر جو ہے وہ ایک سو انتالیس ،چالیس روپے پریا ایک سو اکتالیس پر بھی آ جا رہا ہے۔عمران خان کا پلان تھا کہ کم از کم اس کو جلد از جلد ایک سو پندرہ بیس روپے پر لے آئوں۔اس کی ‘ریزن’ یہ ہے کہ جب باہر سے پیسے آئے ہیں تو ڈالراس کے باوجود ‘اسٹیبل’ نہیں ہو پا رہا۔’منی لانڈرنگ’کے لئے ‘ پی ٹی آئی ‘ کے اندر سے لوگ ن لیگ کے بہت بڑا کام ہو رہا ہے اور اس کے علاوہ جو سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ پاکستان کو اربوں ڈالر قرض واپس کرنا پڑا ہے۔یعنی وہاں سے قرض ہمیں ملتا ہے یا وہاں سے امداد ہمیں ملتی ہے ،یہاں سے ہم ان کو واپس کر دیتے ہیںاور اس کو ‘اسٹیبل’ ہوتے ہوتے ٹائم لگے گا۔اور جہاں تک گیس اور تیل کی بات ہے،اس کو سیٹ ہوتے تھوڑا ٹائم لگے گا پھر ڈالرز آئیں گے۔یعنی ایک ڈیڑھ سال بڑا مشکل ترین لگ رہا ہے۔یہ گزر جانا ہے،اس چیز سے گھبرائیں نہیں یہ گزر جانا ہے۔
لیکن عمران خان اب سیریسلی’ اس بات پہ آ چکے ہیںکہ میں اسمبلیاں توڑوں،نظام بدلوں ،سپریم کورٹ جائوں یا کچھ کروں،یہ کام انہوں نے اب کرنا ہے۔کس طرح کرنا ہے کب کرنا ہے،لیٹ کا اب سوال پیدا نہیں ہوتا کہ ہم اس کو دیر سے لے کر جائیںیا چھ مہینے ،آٹھ مہینے،سال ڈیڑھ سال۔عمران خان اس کو لمبا بھی کھینچ سکتے ہیںلیکن ان کو نظر آ رہا ہے کہ چیزیں اس لیول پر نہیں آ رہیں۔یاد رکھئیے گاکہ وہ کبھی بھی قوم کو ‘ ٹربل’میں نہیں ڈالنا چاہتے اور وہ ہمیشہ سے ‘سرپرائیز’ دینے کے عادی ہیں۔وہ چاہئیں گے تو وہ کچھ کر دیں گے لیکن ابھی تک جو حقیقت ٹی وی کو جو معلومات اوراطلاعات ہیں،کہ انہوں نے ‘سیریسلی’ اس بارے میں سوچنا شروع بھی کر دیا ہے اور چیزوں کو ‘فائینالائیز’ کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ یااس نظام کو توڑا جائے،سپریم کورٹ جایا جائے،اسمبلیاں توڑی جائیں ،کیا کیا جائے۔جو بھی کیا جائے،اب بہتری کی طر اس لئے جانا چاہئے کیونکہ نیب فیل ہو چکی ہے،آپ اس کو جو مرضی کریں،اگر سپریم کورٹ نہ ہو تو کیا ملک ریاض چار سو ساٹھ ارب دے گا؟سپریم کورٹ خود کہہ رہی ہے کہ آپ نظام کو بدلیں ۔ہمیں تیز انصاف چاہئے۔
اس لئے اب ہم بڑھ تو رہے ہیں اگلے اسلامی صدارتی نظام کی طرف۔عمران خان نے کیا فیصلہ کرنا ہے،بہت زیادہ چانسز ہیں کہ عمران خان عنقریب ‘سرپرائیز’ دیں لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ مودی کی حکومت یا انڈیا میں جو حکومت بنتی ہے ،اس کے بعد آپ کو شاید ‘سرپرائیز’ نظر آئے گا کیونکہ اس سے پہلے اگر آپ یہ کرتے ہیں تو پاکستان کے اندر ایک قیاس کھڑا ہو جاتا ہے ”۔

اطہر مسعود وانی
03335176429

Exit mobile version