Site icon روزنامہ کشمیر لنک

مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ !

آج دُنیا کے ایک یا دو ملک نہیں بلکہ متعدد ایسے ممالک ہیں جہاں آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی’ بھوک’ افلاس وشدید قسم کے غذائی بحران کا سامنا ہے۔مہنگائی کے آسیب کا ان دنوں عالمی سطح پرخوفناک چہرہ سامنے آرہا ہے۔ دُنیا بھر میں اشیائے خوردونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتیں 10 کروڑ غریب افراد کو مزید غربت کی گہرائیوں میں دھکیل سکتی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں روز مرہ کے استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ نے غریب کی کمر توڑ دی ہے۔پاکستان کا شمار دن بہ دن ایک غریب ملک میں ہوتا جا رہا ہے جہاں پر لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق بھی میسر نہیں۔ پاکستان میں اکثریت لوگوں کا ذ ریعہ آمدنی انتہائی قلیل ہونے کی وجہ سے لوگوں کا گزر اوقات انتہائی دشوار اور مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ دن بدن تمام استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں ہو شربا اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح عروج پر پہنچ گئی اور اس مہنگائی نے گزشتہ چار’ پانچ سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی۔جوں جوں وقت گزر رہا ہے مہنگائی کاجن بوتل سے باہر آرہا ہے۔ڈالر تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ملکی معیشت ہردن کے ساتھ ہچکولے کھارہی ہے۔بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے عوام کے لیے درد سر بن گیا۔ملک بھرمیں ہوش ربا مہنگائی کے سونامی سے عام آدمی کے لیے دو وقت کی آبرو مندانہ روٹی کا حصول مشکل تر ہو گیا ہے۔ اشیائے خورونوش کے نرخوں میں اضافے کے روز افزوں رجحان کے باعث عام شہری کے لیے زندگی اس حد تک مشکل اور وبالِ جاں بن چکی ہے کہ وہ اس سے چھٹکارے کے لئے خودکشی کا مسافر بننے کو آسان سمجھتا ہے۔ اشیائے خورونوش کی قیمتیں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ عام صارف اْنہیں دیکھ تو سکتا ہے مگرخرید نہیں سکتاتو دوسری طرف نئے تعلیمی سال کے آغاز میں کمر توڑ مہنگی نے کئی متوسط گھرانوں کے نونہالوں کے لیے معیاری تو کجا عام تعلیم کا حصول بھی ایک ادھورا خواب بنا دیا ہے۔ مارچ 2017 کے مقابلے میں مارچ 2018 میں تعلیم کی مہنگائی میں 18 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تعلیمی سال کے آغاز پر بچوں کو نئی کتابیں کاپیاں دلانا والدین کے لیے چیلنج بن چکا جب کہ بچوں کا تعلیمی کورس خریدنے کے لیے نکلے کئی والدین مہنگائی کے باعث اپنی بے بسی کا رونا رو رہے ہیں۔ اور پھر ادویات مہنگی ہونے کی بدولت متعدد غربت کے ماروں کی زندگی اجیرن ہو گی۔اب نہ تو ہسپتالوں میں غریب کے لیے ادویات دستیاب ہیں ۔ نہ ہی باہر سے خریدنے کی سکت رہی ۔تعلیم صحت بنیادی حقوق ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ آج ایک عام شہری کے لیے ان حقوق کا حصول ایک مسئلہ بن چکا اور پھر ملک میں اکثر نوجوان جو سب کچھ لوٹا کہ تعلیم حاصل کر کے ڈگریاں لے کر بے روزگاری کا شکار ہیں ان کی تعداد زیادہ ہے۔ مہنگائی پانچ سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، شرح میں اضافہ مجموعی طور پر نو اعشاریہ41فی فیصد تک ریکارڈ کیا گیا۔ محکمہ شماریات کے ماہانہ اعداد و کے مطابق ملک میں مہنگائی نے گزشتہ پانچ سال کی بلند ترین سطح کو عبور کر لیا ہے۔ مارچ2019 میں مہنگائی کی شرح 9.4فیصدجبکہ جولائی 2018 سیمارچ 2019 تک مہنگائی کی شرح میں 6.7 فیصد ہوا ہے۔مہنگائی کی شرح میں فروری کی نسبت مارچ میں1.4فیصد اضافہ ہوا،بمطابق شماریات ڈویژن رپورٹ سالانہ بنیاد پر سی این جی کی قیمتیں 25.3 فیصد بڑھیں جبکہ ایل پی جی سلینڈر13.4 اور ہائی اسپیڈ ڈیزل 13.1 فیصد سے زائد مہنگا ہوا۔ سالانہ بنیاد پر ہری مرچ151فیصد اور لال مرچ27.6 فیصد مہنگی ہوئیں، دالوں کی قیمت22.7فیصد گوشت کی قیمتیں13.8فیصد تک بڑھی مارچ میں کھانے کی جو جواشیا سب سے زیادہ مہنگی ہوئیں، ان میں پیاز (39.28 فیصد)، تازہ سبزیاں (24.43 فیصد)، ٹماٹر (18.83 فیصد)، چکن (15.88 فیصد)، دال مونگ (12.68 فیصد)، تازہ پھل (12.52 فیصد)، گڑ (2.88 فیصد)، چینی (2.74 فیصد)، پھلیاں (1.23 فیصد)، مچھلی (1.18 فیصد)، مرچیں (0.91 فیصد)، دال چنا (0.60 فیصد) ویجیٹیبل گھی (0.58 فیصد)، چاول (0.41 فیصد)، دال مسور (0.31 فیصد)، بیکری اور کنفیکشنری (0.31 فیصد)، آٹا (0.20 فیصد)، کوکنگ آئل (0.18 فیصد)، چائے (0.17 فیصد)، تازہ دودھ (0.17 فیصد) اور گندم (0.16 فیصد) اضافہ شامل ہے۔شماریات ڈویژن کے مطابق کتابوں کی قیمت31.3اور ٹیوشن فیس میں27.7 فیصد اضافہ ہوا، سیمنٹ کی قیمتیں ایک سال کے دوران13.9فیصد بڑھ گئیں۔اس کے علاوہ ماہانہ بنیاد پر پیاز39.2 فیصد اور کینو22.3 فیصد مہنگے ہوئے، دال مونگ کی قیمت ایک ماہ کے دوران12.6فیصد اور لہسن11فیصد مہنگا ہوا، چینی18فیصد اور گوشت13فیصد مہنگا ہوا جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت4.4فیصد اور کرایوں میں13.4 فیصد اضافہ ہوا، اندرون شہر بسوں کیکرائے47 فیصد مہنگے ہوئے۔اپریل2014میں مہنگائی بڑھنے کی شرح9.1فیصد تھی، گزشتہ سال مارچ کی نسبت54فیصد اور کھیرا45فیصد مہنگے ہوئے۔ تا کہ عام شہری کو سستے داموں آٹا، چینی، گھی، تیل، سبزیاں، دالیں، پھل اور گوشت مل سکے اشیائے خورو نوش کا حصول ہر شہری کا بنیادی آئینی حق بازار میں جا کر دیکھیں ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہو چکا ہے لوگ بے چارے بے یارو مدد گار ہیں اور منہ مانگی قیمت ادا کر دیتے ہیں۔
پٹرول کی قیمت میں اضافہ تمام ضروری اشیاء میں اضافے کا جواز بنتا ہے۔ جس تناسب سے پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوا ہوتا ہے۔ ضروری اشیاء کی قیمتیں اس سے کئی گنا زیادہ بڑھا دی جاتی ہیں۔ نیز جب پٹرول کی قیمتوں میں کمی کا اعلان ہوتا ہے تو یہ قیمتیں نیچے نہیں آتیں۔ اس وقت سبزیوں، دالوں، پھلوں، گوشت، دوائیوں، آٹا، چاول، چینی اور چائے کی پتی تعلیم صحت علاج معالجہ ایک غریب آدمی کی دسترس سے دور کر دی ہے۔ ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو ہماری زندگی کا لازمی جزو نہ۔ لیکن کمر توڑ مہنگائی نے خلق خدا کو ان سے محروم کر دیا ہے۔ اشیائے خور و نوش کے علاوہ بجلی کے بلوں نے بھی عوام کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ چھ ہزار روپے ماہوار کھانے والا شخص کیسے زندہ رہ سکتا ہے۔ جس اسی چھ ہزرا میں سے مکان کا کرایہ بھی ادا کرنا ہے۔ بچوں کو روکھی سوکھی بھی کھلانی ہے۔ بیمار بھی ہونا ہے۔ کام پر جانے کے لئے بس میں سفر بھی کرنا ہے۔ گھر آئے مہمان کو بھی بھگتانا ہے۔ بچوں کی شادیاں بھی کرنا ہیں۔ سو جس طرح وہ زندہ رہتا ہے اس زندگی میں ہر لمحے ایک موت چھپی ہوتی ہے۔ چھ ہزار روپے ماہوار تو چھوڑیں۔ شائد وسائل پر تعش زیست والوں کو علم ہی نہیں کہ یہ غربت کیا گل کھلاتی ہے اور معاشرے کی اخلاقی قدریں کن تاریک گلیوں کے سفر کر رہی ہیں۔یہاں اس وقت 5 کروڑ 87 لاکھ افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ عالمی معیار کے مطابق جس شخص کی یومیہ آمدن 2 ڈالر (تقریباً 2 سو روپے یعنی 6 ہزار روپے ماہانہ) سے زیادہ نہ ہو، وہ غریب شمار کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی ایک تہائی آبادی اس معیار سے نیچے حد درجے افلاس اور بیکسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یہ غربت صرف دیہاتوں تک محدود نہیں، بلکہ بڑے بڑے شہروں میں بھی اکثریت انہی غریبوں کی ہے، جو دو تین عشرے پہلے متوسط درجے کی زندگی گزار رہے تھے اور پھر رفتہ رفتہ غربت کی سطح پر آگئے۔ غربت کے ساتھ مہنگائی کا جن ہمارے سروں پر کچھ اس طرح مسلط ہے کہ جان چھڑائے نہیں چھوٹتی۔ ایک غیر ملکی سروے رپورٹ کے مطابق اکثر پاکستانیوں کی آمدن کا تقریباً 50 فیصد حصہ فقط خوراک پر خرچ ہو جاتا ہے، اس وقت ایک عام گھرانے کے کچن کا خرچہ 15 سے 20 ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے۔ 4 آدمیوں پر مشتمل گھرانے کے ناشتے اور دو وقت کے معمولی اور بالکل سادہ کھانے کا حساب لگائیں تو بڑے آرام سے چار پانچ سو روپے بنے گا۔ جن لوگوں کی آمدن 30 سے 40 ہزار ماہانہ ہے، ان کے بارے میں تو یہ کہنا درست ہے کہ ان کی آمدن کا نصف خوراک پر خرچ ہوتا ہے، مگر جن کی آمدن ہے ہی 6 سے 12 ہزار روپے تک ہے، وہ لوگ کس طرح اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہیں، یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔معاشرے کا کون سا طبقہ کتنا متاثر ہوا اس نے غریب تو غریب متوسط طبقے کے لوگوں کی بھی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اس مہنگائی نے غریب عوام کے لئے جینا محال کردیا ہے اور غریب و مزدور طبقہ کی تو بات ہی مت پوچھئے’ ان کے یہاں تو چولہا جلنا ہی دشوار ہوگیا ہے۔ بھوک’ افلاس فاقہ کشی کا منظر بھوک سے بلبلاتے بچے اس ناگفتہ بہ صورت حال کو کہ ملک میں خوردنی اشیاء کی قلت اور مہنگائی دن بدن شدت اختیار کرتی جا رہی ہے جس نے غریبوں کا خون تک نچوڑ لیا ہے ۔ہمیں متوسط غریب طبقہ کو سامنے رکھ کر پالیسی ترتیب دینی چاہیے تاکہ ان لوگوں کے لیے بھی آسانیاں پیدا ہوں اور ملک میں خوشحالی ممکن ہو۔

Exit mobile version