کراچی میں بارش کے بعد میئر وسیم اختر اور سندھ حکومت ایک بار پھر آمنے سامنے آگئے اور دونوں نے ذمے داری ایک دوسرے پر ڈال دی۔کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سعید غنی نے کہا کہ بارش کے دوران کئی بڑی شاہراہیں مکمل بند نہیں ہوئیں، شارع فیصل پر تین مقامات پر پانی تھا جس کی وجہ سے ٹریفک متاثر ہوئی، ابھی مختلف آبادیوں میں پانی کھڑا ہے جس کو نکالنا ہے، یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ آج ہی تمام علاقوں سے پانی نکال دیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ یوسف گوٹھ اور سعدی ٹاؤن میں بارش کا پانی موجود ہے، وہاں سے پانی نکالنے کی کوشش کررہے ہیں، یوسف گوٹھ،سعدی ٹاؤن اور رئیس امروہی ٹاؤن میں بارش کا پانی آجاتا ہے۔وزیر بلدیات کا کہنا تھا کہ کراچی کے بڑے نالوں کی صفائی کی ذمہ داری کے ایم سی کی ہے، کمشنرکے ساتھ اجلاس میں میئر اور ڈی ایم سیز سے پوچھا تھا کہ کس علاقے کے کتنے نالے صاف ہوئے ہیں، میئر کراچی نے اجلاس میں بتایا کہ کئی نالے صاف ہوچکے ہیں اور بعض صاف ہوجائیں گے، نالوں کی صفائی کا کام میئر نے کرانا ہے سندھ حکومت نے نہیں، اس کام میں سندھ حکومت کے ایم سی اور ڈی ایم سیزکی معاونت کرتی ہے، 38 نالوں کی صفائی کے لیے کے ایم سی نے ایک ارب 20 کروڑ مانگے تھے، حکومت نے 50 کروڑ روپے فراہم کیے تھے۔کراچی میں بجلی کی صورتحال پر سعید غنی نے کہا کہ جیسے ہی بارش شروع ہوئی کے الیکٹرک کے فیڈرز ٹرپ ہونا شروع ہوگئے، کراچی کے مختلف علاقوں میں 36 گھنٹے بعد بھی بجلی بحال نہیں ہوئی،کے الیکٹرک کے خلاف کارروائی کے لیے صوبائی حکومت کے پاس کوئی مکینزم نہیں، وفاقی حکومت ادارے کے خلاف کارروائی کرے۔سعید غنی نے سوال کیا کہ صدر مملکت،گورنر، دو وفاقی وزرا کا تعلق کراچی سے ہے، انہوں نے شہر کے لیے کیا کیا؟اس موقع پر مشیر اطلاعات مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ صوبائی حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز کو بٹھا کر کراچی کے مسائل حل کرنا چاہتی ہے، میئر کراچی اختیارات کا رونا روتے ہیں،ان کے پاس جواختیارات ہیں وہ اس کے مطابق کارکردگی کیوں نہیں دکھاتے۔واضح رہے کہ میئر کراچی وسیم اختر نے شہر میں بارش کے بعد وفاقی حکومت کو خط لکھا تھا جس میں انہوں نے سندھ حکومت کی جانب سے عدم تعاون پر وفاق سے مدد طلب کی تھی۔