Site icon روزنامہ کشمیر لنک

برطانوی اخبار نے مقبوضہ کشمیر میں بڑے خطرے کا عندیہ دے دیا

سری نگر،لندن: برطانوی اخبار دی گارجین نے انکشاف کیا ہے5 اگست کے بعد بڑے پیمانے پر ہونے مقبوضہ کشمیر میں گرفتاریا ں جاری ہیں،گارجین کے مطابق بڑے پیمانے پر ہونے والی ان گرفتاریوں نے کشمیری خاندانوں کو تقسم کر دیا، 5 اگست سے ہزاروں نوجوانوں کو جیلوں میں قید کیا گیا ہے، جس کے باعث والدین سارا سارا دن جیلوں کے باہر ملاقات کے لیے کھڑے رہتے ہیں مگر انہیں ان کے جگر گوشوں سے ملنے بھی نہیں دیا جاتا۔برطانوی اخبار کے مطابق ان تین ہفتوں کے دوران 2300 سے 4000 تک کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے، بہت سے کشمیری والدین یہ دہائی بھی دے رہے ہیں کہ وہ نہیں جانتے کہ ان کے بچے مقبوضہ وادی ہی میں ہیں یا انہیں بدنام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت لکھنو، بریلی یا آگرہ شفٹ کر دیا گیا ہے کیونکہ عالمی اداروں کا دعوی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی جیلیں بھر چکی ہیں۔اس صورتحال میں جب والدین کشمیر سے باہر نہیں جا سکتے اور بچے دوسرے شہروں کی جیلوں میں نہ جانے کس حال میں ہیں کی صورتحال نے والدین کو مزید پریشان کر رکھا ہے ،بدنام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ بھارتی حکومت ظلم کا یہ ضابطہ بھی فراہم کرتا ہے کہ بغیر مقدمہ چلائے قیدی کو دو سال تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔ اخبارکے مطابق بھارتی فوج نے سری نگر کے علاقے صورہ میں بڑے کریک ڈاون کی تیاریاں کرلیں، بھارتی پابندیوں کے باوجود احتجاج کا مرکز بننے والے مقبوضہ کشمیر کے علاقے صورہ میں بھارتی فوج کسی بھی وقت کریک ڈاون کرسکتی ہے۔ پولیس کے اعلی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس علاقے صورہ میں عنقریب ایک وسیع کریک ڈاون کیا جائے گا ۔غیر ملکی خبر ایجنسی نے چند روز قبل ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ سری نگر کا علاقہ صورہ بھارتی فوج کے لیے نوگو ایریا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ کشمیری نوجوانوں نے پہرے داری نظام بناکر صورہ میں بھارتی فوج کا داخلہ بند کررکھا ہے۔ صورہ میں کشمیریوں نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کررکھی ہیں جبکہ پہرے داری نظام کے تحت ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں، بھارتی فوج کی آمد پر مساجد سے اعلانات کیے جاتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج کی جبری پابندیاں 25 ویں روز بھی برقرار ہیں ،کھانے پینے کی اشیا اور دواوں کی قلت بڑھ گئی ہے جبکہ کشمیریوں کا بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع ہے ،واضح رہے فرانسیسی میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک سینئر حکومتی ذرائع نے انہیں بتایا کہ نئی دہلی کی جانب سے مقبوضہ وادی کی خودمختاری کو ختم کرنے وہاں کرفیو نافذ ہونے کے باوجود 500 مرتبہ احتجاج کیا جاچکا ہے۔خیال رہے کہ بھارت کی جانب سے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے سے کچھ گھنٹوں قبل وادی میں سخت لاک ڈاون کردیا تھا، جو ابھی تک جاری ہے، اس کے ساتھ ہی نقل و حرکت محدود، موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز کو معطل کردیا تھا۔یہی نہیں بلکہ مقبوضہ وادی میں پہلے سے موجود 5 لاکھ بھارتی فوجیوں کی تعداد کو مزید بڑھاتے ہوئے ہزاروں فوجیوں کی تعیناتی کردی گئی تھی۔تاہم ان تمام پابندیوں کے باوجود مرکزی شہر سرنگر میں بھی احتجاج کیا گیا، جہاں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پیلٹ گنز اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔ایک سینئر حکومتی ذرائع نے فرانسیسی میڈیا کو بتایا کہ 5 اگست سے کم از کم 500 مرتبہ احتجاج اور پتھر پھینکنے کے واقعات رونما ہوچکے ہیں، جن میں سے نصف سے زیادہ سری نگر میں ہوئے۔انہوں نے بتایا کہ اب تک تقریبا 100 شہری زخمی ہوچکے ہیں جبکہ 300 پولیس اور 100 نیم فوجی دستوں کے اہلکاروں کو چوٹیں آئیں۔ انہوں نے بتایا کہ ‘ناکہ بندی کے بغیر مظاہروں کی تعداد مزید زیادہ اور بڑی ہوسکتی ہے کیونکہ عوامی مخالفت اور غصے میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے’۔

Exit mobile version