Site icon روزنامہ کشمیر لنک

ٹویٹرکشمیریوں اور اس کے حمایتوں کو خاموش کرنے کے لیے بھارت کو مدد فراہم کر رہا ہے

اسلام آباد() انٹرنیٹ پر آزادی اظہار رائے کو ایک مرتبہ پھر قدغن لگ گئی ہے، اور اسے دبا میں لانے کا گھنانا چہرہ ایک مرتبہ پھر سامنے آرہا ہے تاہم اب کوئی اور نہیں بلکہ خود سماجی رابطے کی ویب سائٹس ہی اس کی ذمہ دار ہیں جو آزادی اظہار رائے کی علمبردار رہی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق حال ہی میں سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے یہ شکایات موصول ہوئیں کہ ان کے اکانٹس کو بند کر دیا گیا یا پھر ان کے پیغام کو ویب سائٹ سے ہٹادیا گیا جو انہوں نے مقبوضہ کشمیر کی حمایت اور بھارتی فورسز کے ظلم کے خلاف کیے تھے۔حکومت پاکستان کی جانب سے ایسے 200 اکانٹس کی نشاندہی کی گئی تھی جو صرف ٹوئٹر نے بلاک کیے تھے، جبکہ اسلام آباد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر الزام بھی عائد کیا تھا کہ وہ کشمیریوں اور اس کے حمایتوں کو خاموش کرنے کے لیے بھارت کو مدد فراہم کر رہا ہے۔جن صارفین کے اکانٹس کے خلاف رپورٹ ٹوئٹر کو موصول ہوئیں تھیں ان میں پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی بھی شامل تھے جنہیں ٹوئٹر کی جانب سے انتباہ جاری کیا گیا تھا۔تاہم ٹوئٹر نے یہ واضح کیا تھا کہ ڈاکٹر عارف علوی کے اکانٹ میں ایسا مواد نہیں تھا جس سے پیلٹ فارم کے ضابطے کی خلاف ورزی ظاہر ہو، تاہم اسی وجہ سے ان کے اکانٹ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔تاہم اس حوالے سے جب بھی ٹوئٹر سے رابطہ کیا گیا تو اس نے ڈان کو بتایا کہ وہ اپنی پالیسی کے مطابق کارروائی کر رہا ہے جبکہ اس میں کسی سیاسی نکتہ نظر یا صارف کے ملک کو نہیں دیکھا جارہا۔تاہم اس نے کچھ اکانٹس کو ٹوئٹ کرنے کی اجازت دینے یا سینسر کرنے سے متعلق سوال پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

Exit mobile version