امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے آپ سمیت سب کو بند گلی میں دھکیل دیا۔ جس طریقے سے وہ طالبان کے ساتھ معاہدہ کرنے جارہے تھے اگر اس طریقے سے ہوجاتا تو بھی مصیبت تھی اور اب جب مذاکرات ختم کئے تو بھی مصیبت ہے۔حقیقت یہ ہے کہ قطر میں ہونے والے امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کو غلط طور پر امن مذاکرات کا نام دیا گیا تھا۔ یہ امن مذاکرات نہیں بلکہ صرف امریکہ اور طالبان کے مذاکرات تھے۔ امن صرف اس صورت میں آسکتا ہے کہ جب افغان آپس میں بھی جنگ ختم کرکے مشترکہ سیاسی نظام پر متفق ہو جائیں۔نائن الیون سے قبل تو افغانستان میں امریکہ یا کسی اور ملک کی افواج موجود نہیں تھیں تو کیا وہاں امن تھا؟ سوویت انخلا کے بعد تو نجیب حکومت اور مجاہدین کی لڑائیوں پھر مجاہدین کی آپس کی لڑائیوں اور اس کے بعد طالبان اور مجاہدین کی لڑائیوں میں جو تباہی ہوئی، اس کے مقابلے میں تو وہ تباہی ہیچ تھی جو سوویت افواج کے قبضے کے دوران ہوئی تھی۔ یوں بین الافغان مفاہمت کے بغیر امریکی افواج کے انخلا کی صورت میں ضروری نہیں کہ امن آجائے بلکہ مزید تباہی بھی آسکتی ہے۔افغانستان سے متعلق امریکیوں کی عقل باراک اوباما کے دور میں ٹھکانے آگئی تھی اور سیاسی حل کا راستہ نکالنے کی خاطر رچرڈ ہالبروک کو خصوصی نمائندہ مقرر کیا گیا تھا۔ تب بھی طالبان قطر میں امریکہ سے براہ راست مذاکرات پر آمادہ ہو گئے تھے لیکن جب اس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے احتجاج کیا تو باراک اوباما نے بھی طالبان کے ساتھ افغان حکومت کے بغیر مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے سے انکار کردیا۔اب ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے پہلی غلطی یہ کی کہ وہ افغان صدر اشرف غنی کے احتجاج کے باوجود طالبان سے مذاکرات پر آمادہ ہوئے۔ ان کا اور ان کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کا خیال تھا کہ جب ان کے اور طالبان کے مذاکرات ایک خاص مرحلے تک پہنچ جائیں گے تو طالبان افغان حکومت سے متعلق بھی لچک پیدا کر لیں گے اور دوسرے مرحلے پر اسے بھی شامل کر لیا جائے گا لیکن جب امریکہ نے افغان حکومت کے بغیر مذاکرات شروع کئے تو اس سے افغان حکومت کا مورال آسمان سے زمین پر آگرا جبکہ طالبان کا مورال زمین سے آسمان پر چلا گیا۔جوں جوں مذاکرات کامیابی کی طرف بڑھتے گئے توں توں افغان حکومت سے متعلق طالبان کا رویہ مزید بے لچک ہوتا گیا۔ اسی طرح امریکی مذاکرات کاروں کو خوش فہمی تھی کہ معاہدے کے قریب جاکر طالبان جنگ بندی پر آمادہ ہو جائیں گے لیکن جوں جوں وہ وقت قریب آتا گیا توں توں طالبان جنگ تیز کرتے گئے۔ جس سے افغان حکومت اور سیاسی نظام میں شامل دیگر افغان رہنماوں کا یہ پیغام ملا کہ یہ معاہدہ ان سب کی سیاسی موت ہے چنانچہ جب زلمے خلیل زاد معاہدے کا فائنل ڈرافٹ لے کر کابل گئے تو ان کا سامنا ایک بپھرے ہوئے اشرف غنی سے ہوا۔زلمے خلیل زاد نے طالبان سے وعدہ کیا تھا کہ ان کے پانچ ہزار سے زائد قیدیوں کو رہا کردیا جائے گا لیکن یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ قیدی افغان حکومت کی جیلوں میں ہیں چنانچہ اشرف غنی نے زلمے خلیل زاد سے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ سے کہہ دیں کہ وہ طالبان کے قیدی (اگر ان کے پاس ہیں) رہا کردیں۔ طالبان روزانہ میرے لوگوں کو قتل کررہے ہیں۔ میرے ساتھ ان کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ میری یہ انگلیاں کٹ تو سکتی ہیں لیکن طالبان کی رہائی کے حکمنامے پر دستخط نہیں کر سکتیں چنانچہ معاہدے کی ناکامی کی پہلی وجہ افغان صدر کا یہ انکار بنا۔
مقبول خبریں
تازہ ترین
- موجودہ حکومت کو عوام مسترد کر چکے،سخت نہیں اچھے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے،اسد عمر
- پاکستان کی سیاست عمران خان کے گرد گھومتی ہے ‘ہمایوں اخترخان
- عمران خان ناکام مارچ کے بعد عدالت کا کندھا استعمال کرنا چاہتے ہیں، عرفان صدیقی
- مہنگائی بم کی دوسری قسط جون میں آئے گی، پرویز الٰہی
- ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز، 16 رکنی قومی سکواڈ کا اعلان
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments