ویسے ہی ایک بات کی جائے تو ایک دن شاہد خاقان عباسی نے ان کیخلاف تحقیقات کرنے والے نیب والوں سے پوچھا کہ کیا نیب چیئرمین کو مقرر کرنے پر بھی ان پر کوئی کیس ہو سکتا ہے۔لیکن جو بات شاذ و نادر ہی ہوتی ہے اور ماضی میں شاید ہی کبھی اس کا مشاہدہ کسی نے کیا ہو، وہ یہ ہے کہ شاہد خاقان عباسی نے ایل این جی کیس کے حوالے سے تمام متعلقہ حکام اور دیگر متعلقہ افراد بشمول مفتاح اسماعیل اور شیخ عمران الحق (جو نیب کی حراست میں ہیں) کو آگاہ کر دیا ہے کہ وہ اس معاملے کی ذمہ داری ان پر (شاہد عباسی) پر ڈال دیں تاکہ انہیں نیب کے عتاب سے بچایا جا سکے۔ان کی پارٹی اور خاندان کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ شاہد خاقان عباسی پورے ایل این جی پروجیکٹ کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’انہیں پہلے ہی اندازہ تھا کہ نیب بالآخر مفتاح اسماعیل، شیخ عمران الحق اور کئی دیگر کو گرفتار کرکے ان پر دبائو ڈالے گا۔گرفتاری سے کئی ہفتے قبل انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ وہ اُن لوگوں سے رابطہ کرکے انہیں بتائے کہ وہ نیب کی جانب سے جیل میں ڈالے جانے سے بچنے کیلئے جو بیان اپنی مرضی سے دینا چاہیں دے سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر یہ لوگ نیب کی جیل یا حراست سے بچنے کیلئے سلطانی گواہ بن بھی گئے تو وہ ان کیخلاف دل میں کوئی بات نہیں رکھیں گے۔‘‘کہا جاتا ہے کہ ان میں سے کچھ افراد جیسا کہ آئی ایس جی ایس کے مینیجنگ ڈائریکٹر مبین صولت اور پیٹرولیم کے سابق سیکریٹری عابد سعید نے یہی کیا اور وزیر کیخلاف بیان دیا (اور ساری ذمہ داری ان پر ڈال دی) اور خود کو کسی بھی طرح کے مبینہ غلط کام سے بری الذمہ قرار دیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہد خاقان عباسی نے نیب کو یہ تک کہہ دیا ہے کہ وہ خود اس معاملے کی پوری ذمہ داری لینے کو تیار ہیں اور مفتاح اور عمران الحق کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں اور دونوں کو فوراً رہا کر دیا جائے۔اسی دوران اس نمائندے کی جانب سے قابل بھروسہ ذرائع کے توسط سے سابق وزیراعظم سے تبادلہ خیال کیا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’سوالناموں‘‘ کے جوابات دیتے ہوئے ایک سال گزر چکا ہے اور شاہد عباسی کے مطابق یہ سوالات ’’انتہائی مضحکہ‘‘ خیز اور ’’غیر منطقی تکرار‘‘ سے بھرے ہیں۔