Site icon روزنامہ کشمیر لنک

ملیحہ لودھی کا گرم مزاج، وزیراعظم کو شکایتیں کس نے لگائیں؟

حضرت علیؓ سے کسی نے شکایت کی کہ آپ سے پہلی حکومتیں اچھی تھیں جبکہ آپ کی حکمرانی قابلِ ستائش نہیں ہے۔ آپ نے جواب میں فرمایا ’’اس لئے کہ اُن کے مشیر ہم تھے اور ہمارے مشیر آپ جیسے لوگ ہیں‘‘۔مدعا یہ کہ قیادت جتنی بھی اچھی، شریف، دیانتدار اور باصلاحیت ہو اگر اُس کے وزیر، مشیر اور دیگر عہدیداران اُس معیار کے نہیں ہونگے تو گڈ گورننس کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔بظاہر یہ چیز خلافِ حکمت لگتی ہے کہ ہر چند ماہ کے بعد حکومتی عہدے داران میں ردو بدل کردیا جائے کیونکہ اس سے حکومتی مشینری کا اندرونی عدم استحکام جھلکتا ہے اور متعلقہ لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہوتے ہیں کہ ہمیں کام کرنے کا مناسب موقع تو دیا جائے لیکن اگر عزم اعلیٰ کارکردگی منوانے کا ہو تو پھر کسی کو بھی غیر محدود مواقع دینا مشکل ہو جاتا ہے۔وفاق میں ہمارے وزیراعظم کی حکمرانی اور اسے درپیش چیلنجز کا تو ہمیں براہ راست زیادہ علم نہیں ہے لیکن کچھ مسائل تو ہیں جن کے باعث اتنی بڑی اور وسیع سفارتی و سیاسی تبدیلیاں عمل میں لائی جا رہی ہیں۔اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی کو وزیراعظم کے حالیہ دورہ امریکہ کے فوری بعد یعنی وطن واپسی کے اگلے روز ہی ہٹانا ضروری سمجھا گیا ہے جس پر اندرونِ و بیرونِ ملک اچھی خاصی بحثیں ہو رہی ہیں۔یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ مستقل مندوب کا ماتحت عملہ اور ان کے کولیگ اُن کی گرم مزاجی سے نالاں و غیرمطمئن تھے جنہوں نے اپنی شکایات وزیراعظم کے گوش گزار کیں۔اُن کی کارکردگی بھی زیر بحث تھی، علاوہ ازیں اس نوع کی باتیں بھی سننے میں آرہی تھیں کہ وہ موجودہ سخت ترین حالات میں بھی مودی سرکار کے لئے کوئی نرم گوشہ رکھتی تھیں جبکہ اُن کی جگہ لائے گئے سابق ایمبسیڈر منیر اکرام کے متعلق بتایا جا رہا ہے کہ وہ بھارت یا مودی انتظامیہ کے حوالے سے خاصے سخت مؤقف کے حامل ہیں۔درویش کی نظر میں یہ مسئلہ ایسا اہم نہیں ہے کسی کی ذاتی رائے کچھ بھی ہو سکتی ہے لیکن جب وہ سرکاری مشینری کا حصہ ہے تو اس نے تمام امور کی انجام دہی اُسی پالیسی کی روشنی میں کرنی ہے جس کی اُسے ہدایت کی جائے گی۔ اصل بات وہی ہے کہ اگر کسی بھی فرد کو کسی سرکاری ذمہ دارای پر فائز کیا جاتا ہے تو پھر اس سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ کم سے کم مدت میں کتنا ڈیلیور کرتا ہے۔اگر ڈیلیوری قابلِ اطمینان نہیں ہے تو پھر ایسے فرد کو چاہے وہ کتنا ہی اثر وسوخ کیوں نہ رکھتا ہو اپنے عہدے پر براجماں رہنے کا کوئی حق نہیں رہتا ہے لہٰذا وزیراعظم نے اپنے وزراء کو ہٹانے کا اعلان کر کے، وسیع پیمانے پر سیاسی و سفارتی تبدیلیاں لاتے ہوئے جو اقدام کیا ہے اُسے درست سمت میں ایک پیش رفت کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔وزیراعظم جس طرح وفاق میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ دیکھنا چاہتے ہیں اُسی طرح ان کی خواہش ہے کہ وہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی نہ صرف گڈ گورننس دیکھیں بلکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار صاحب اُن کی تسلی و اطمینان کے عین مطابق کامیابیوں کے جھنڈے گاڑیں اور یہ اُسی صورت ممکن ہے جب انہیں اُسی نوع کا فری ہینڈ دیا جائے جس طرح کا وفاق میں خود وزیراعظم کو حاصل ہے۔یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ غیر مناسب، غیر موزوں اور قدم سے قدم نہ ملا کر چلنے والی ٹیم کے ساتھ کوئی بھی کپتان کوئی معیاری و قابلِ ستائش نتائج یا کامیابیاں دے سکے۔پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ایسے شخص کو وزیراعلیٰ منتخب کیا گیا ہے جس کی شرافت، وفاداری، منکسر المزاجی اور عزم و خلوص پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ جس کی پشت پر کوئی اسٹرانگ لابی یا مفاداتی ٹولہ براجماں نہیں ہے، جو دلجمعی سے کام کرنے اور نتائج دینے پر یقین رکھتا ہے۔پارٹی کے ذمہ داران تو رہے اپنی جگہ، بہت سے پارٹی ناقدین کی رائے میں بھی وزیراعظم کو بطور وزیراعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار سے زیادہ قابلِ اعتماد شخص ملنا خاصا مشکل ہے کیونکہ اقتدار کی غلام گردشوں میں ہمیشہ سازشی تھیوریاں رنگ دکھاتی ہیں۔بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ اگر کسی بھی ٹیم کے تمام کھلاڑی اپنے کپتان کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر نہیں چلتے ہیں تو مطلوبہ کامیابیوں کا حصول مشکل تر ہوتا چلا جاتا ہے اس لئے جس نوع کی تطہیر وفاق میں کی جا رہی ہے اس کا عملی مظاہرہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں بھی ہونا چاہئے۔پنجاب ٹیم کے کپتان سے اگر آپ بھرپور ڈیلیوری چاہتے ہیں تو اُن کی معاونت کرتے ہوئے اُنہیں ایسی ٹیم بھی ملنی چاہئے جو اُن کی راہ میں روڑے اٹکانے کے بجائے روڑے ہٹانے کا کام کرے کیونکہ حکومتِ پنجاب کی اعلیٰ کارکردگی ہمیشہ وفاق اور وزیراعظم پاکستان کے لئے نیک نامی اور عوامی مقبولیت کا باعث ثابت ہوتی رہی ہے۔اعلیٰ ڈسپلن، جانفشانی و لگن اور بھرپور اعتماد کے بغیر گڈ گورننس کے تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے۔ ترقی کے لئے خود احتسابی سے بڑھ کر کوئی امرت دھارا نہیں ہوتی لیکن خوف و ہراس اور بے یقینی و عدم اعتمادی سے چھٹکارا اتنا ہی ضروری ہے جتنا بالائی سطح پر عوام دوست پالیسیاں بنانا اور ان پر کماحقہ گراس روٹ لیول تک عملدرآمد کروانا، جس کا تقاضا نو آبادیاتی عہدوں یا ڈی سی اختیارات کی بحالی نہیں، اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم کرتے ہوئے مقامی حکومتوں کے ذریعے عوامی نمائندوں کی شمولیت ہے۔ جس کا کامیاب تجربہ ہم مشرف دور میں کر چکے ہیں۔اُس دور کی تعمیر و ترقی اور بلدیاتی مضبوطی ریکارڈ پر ہے جسے نقصان بالائی سطح سے پہنچا نہ کہ نچلی سطح سے۔ چار معصوم بچوں کا قاتل چونیاں سے جس طرح پکڑا گیا ہے اس پر پنجاب گورنمنٹ تحسین کی مستحق ہے اس تجویز کے ساتھ کہ سیف سٹی پروجیکٹ کا پھیلاؤ چھوٹے شہروں تک پہنچا دیا جائے البتہ مہنگائی اور ڈینگی پر قابو کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا جائے۔

Exit mobile version