جلسہ عام میں جیسے ہی قائدِ مِلّت تقریر کرنے کے لیے اٹھے اور ابھی دو الفاظ’’برادرانِ اسلام ‘‘ ہی بولے تھے کہ دو گولیاں چل گئیں۔ ایک ان کے سینے میں پیوست ہوگئی اور دوسری نے ان کے قاتل کو ڈھیر کردیا۔قائدِ مِلّت کی شہادت16اکتوبر1951کو راول پنڈی میں واقع ہوئی۔ جمہوریت کا چراغ اس دن بجھ گیا اور نوکر شاہی کے لیے آگے بڑھنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کا راستہ کھل گیا۔قائدِ مِلّت 16اکتوبر کی صبح راول پنڈی پہنچے ۔ان کو جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا ۔بہ قول بیگم رعنا لیاقت علی خان ،جن کا انٹرویو حال ہی میں ایک مقامی اخبا ر میں چھپ چکا ہے، شہیدِمِلّت کو اس جلسہ عام کے سامنے نئے انتخابات کا اعلان کرنا تھا (اگر اس روز یہ اعلان ہوجاتا اور انتخابات ہوجاتے تو تاریخ بدل جاتی ۔اور نوکر شاہی کے سیاسی عزائم خاک میں مل جاتے ۔کیوں کہ انتخابات سےنظامِ جمہوریت میں از سرِ نو توانائی پیدا ہو جاتی)۔مگر ہوا یوں کہ اس جلسہ عام میں جیسے ہی قائدِ مِلّت تقریر کرنے کے لیے اٹھے اور ابھی دو الفاظ’’برادرانِ اسلام ‘‘ ہی بولے تھے کہ دو گولیاں چل گئیں۔ ایک ان کے سینے میں پیوست ہوگئی اور دوسری نے ان کے قاتل کو ڈھیر کردیا۔ یعنی موقعے پر ہی بانس کے کٹ جانے سے بانسری کے بجنے کا خطرہ نہیں رہا۔قتل کی تفتیش کا کام مرکز کے ایک پولیس افسر کے سپرد ہوا۔ وہ بد قسمت افسر کچھ دستاویزلیے ابھی کراچی آرہا تھا کہ اس کا ہوائی جہاز کراچی پہنچنے سے پندرہ منٹ پہلے راستے ہی میں گر کر تباہ ہوگیا۔افسر مرگیا،تفتیش کے کاغذ جل گئے۔شہید کی بیوہ کے بین نےطوالت پکڑی تو اس کو سفارت دے کر ملک سے ہی باہر بھیج دیا گیا۔یہ خونیں ڈراما اگر امریکا جیسے ملک میں ہوتا تو اس پر کم از کم کئی ایک ڈیٹیکٹیو فلمیں بن جاتیں۔مگر یہاں دستور کے مطابق سارا بوجھ قدرت کے سر تھوپ دیا گیا اور اگر کوئی انکوائری ہوئی بھی تو اس کی رپورٹ عوام کے سامنے نہیں آئی۔حساب ِ دوستاں درِ دل !