لاہور ہائیکورٹ نے پرویز مشرف کی درخواست منظور کرتے ہوئے سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کالعدم قرار دے دی ہے۔
فل بینچ نے فیصلہ سنایا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف کیس قانون کے مطابق نہیں بنایا گیا۔
لاہور ہائی کورٹ نے پیر کو سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
غداری کیس کا فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کے خلاف پرویز مشرف کی درخواست پر سماعت پیر کو جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے کی۔
وفاقی حکومت نے خصوصی عدالت کی تشکیل سے متعلق سمری اور ریکارڈ عدالت میں پیش کی۔
عدالتی معاونت کے لیے آئے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما اور معروف وکیل بیرسٹر علی ظفر نے سماعت کے دوسرے روز جمعہ کو اپنے دلائل کا آغاز کیا تھا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ اس درخواست میں نہ صرف خصوصی عدالت کی تشکیل کو چیلنج کیا گیا ہے بلکہ اس قانون کو بھی ختم کرنے کی استدعا کی گئی ہے جس کے تحت خصوصی عدالت نے ملزم کی غیر موجودگی میں ٹرائل کے بغیر فیصلہ سنایا۔ خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کی غیر موجودگی میں ٹرائل کرنے کا اختیار استعمال کیا جو کہ آئین سے متصادم ہے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ یہ فیصلے کرنے کا اختیار اس وقت کی وفاقی کابینہ کو تھا۔ لیکن کابینہ نے مشرف کے خلاف اس مقدمے کی منظوری نہیں دی تھی۔
جنرل پرویز مشرف کے خلاف نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ اور ججوں کو نظر بند کرنے جیسے اقدامات کی وجہ سے آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے بعد حکومت نے چیف جسٹس آف پاکستان سے مشرف کے خلاف مزید کارروا ئی کے لیے تین ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل تین رکنی خصوصی عدالت بنانے کی استدعا کی تھی۔
واضح رہے کہ آئین کا آرٹیکل چھ دستور توڑنے کو سنگین غداری قرار دیتا ہے۔
آرٹیکل چھ کی شق ایک کے مطابق ’کوئی بھی شخص جو بزور طاقت، یا بزعم طاقت یا کسی اور غیر آئینی طریقے سے آئین کو توڑے، اس کی توہین کرے، معطل کرے یا پھرعارضی طور پر ملتوی کرے یا پھر ایسا کرنے کی کوشش یا سازش کرے تو ایسا شخص آئین سے سنگین غداری کا مرتکب ہو گا۔‘
اسی آرٹیکل کی شق نمبر دو کے مطابق جو شخص بھی آئین توڑنے کے عمل میں مدد کرے یا اس پر ابھارے یا تعاون کرے تو وہ بھی سنگین غداری کا مرتکب ہو گا۔
اس آرٹیکل کی شق دو اے کے مطابق سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور کوئی اور عدالت اس سنگین غداری کے عمل کی توثیق نہیں کرے گی۔
اس آرٹیکل کی شق تین کے مطابق پارلیمنٹ قانون کے مطابق سنگین غداری کی سزا متعین کرے گی۔
سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے 17 دسمبر 2019 کو جنرل مشرف کو سزائے موت سنائی تھی۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ سابق آرمی چیف پر آئین سے غداری کا جرم ثابت ہو گیا ہے۔
تاہم لاہور ہائی کورٹ میں ان کے وکیل اظہر صدیق نے عدالت سے فیصلہ کالعدم قرار دینے کی اپیل کی تھی۔