شمال مشرقی دہلی کے کئی حصوں میں بدھ کو مسلسل چوتھے روزبھی غنڈہ گردی اور فرقہ پرستی کا ننگا ناچ جاری رہا۔ ساری کارروائیاں پولیس کی ناک کے نیچے انجام دی گئیں۔ پولیس کو فسادیوں کو کنٹرول کرنا انتہائی مشکل ہو رہا تھا جو گلیوں اور سڑکوں پر گھومتے ہوئے آگ زنی کر رہے تھے اور لوٹ مچارہے تھے۔ سنگباری کر رہے تھے اور لوگوں کو مار پیٹ رہے تھے۔ دہلی کے مختلف علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا اور وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے فوج طلب کرنے کی درخواست کردی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دہلی میں مسلم کش فسادات میں جاں بحق افراد کی تعداد 20 ہوگئی ہے اور 250 سے زائد زخمی ہیں۔دہلی کی سڑکوں پر پولیس کی سرپرستی میں انتہا پسند ہندوؤں کا راج ہے۔ مسلح جتھوں نے مسلمانوں کی دکانیں اور گھر نذر آتش کردیے جبکہ متعدد مساجد کو شہید کردیا ہے۔شہر میں شدید کشیدگی برقرار ہے اور جنگ زدہ علاقے کا منظر پیش کررہا ہے جبکہ پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات ہے اور 4 مسلم اکثریتی علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔متاثرہ علاقوں میں دکانیں اور دفاتر بند ہیں، امتحانات ملتوی ہوگئے ہیں جبکہ خوف و ہراس کا عالم ہے۔ صورتحال اس قدر خراب ہے کہ زخمیوں کو اسپتال منتقل کرنے والی ایمبولینس پر حملے ہورہے ہیں۔نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ دہلی ہائی کورٹ نے رات گئے جسٹس ایس مرلی دھر کے گھر پر ایک درخواست کی ہنگامی سماعت کی اور پولیس کو ایمبولینس اور زخمیوں کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا۔ درخواست گزار نے عدالت سے زخمیوں کو اسپتال منتقل کرنے کے لیے تحفظ فراہم کرنے کی استدعا کی تھی۔جواہر لال یونی ورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ اروند کجریوال کے گھر کے باہر جمع ہوئے اور تشدد کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ دہلی پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلیے پانی کی توپ کا استعمال کیا۔ہنگاموں کی کوریج کے دوران این ڈی ٹی وی کے رپورٹرز کو بھی مارا پیٹا گیا اور انہیں روک کر کہا گیا کہ اپنا ہندو ہونا ثابت کرو۔ اس موقع پر پولیس صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی۔علاوہ ازیں دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے فوج بلانے کامطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئی دہلی کی صورتحال تشویشناک ہے، بھارتی پولیس صورتحال قابو نہیں کرپارہی، کرفیو کینفاذاورفوج کی طلبی کیلئیوزارت داخلہ کو لکھ رہاہوں۔واضح رہے کہ ان فسادات کا آ غاز اتوار کو ہوا جب دہلی میں مسلم مخالف متنازع شہریت قانون کے خلاف پرامن دھرنے پر بیٹھے مظاہرین پر مسلح ہندو جتھوں نے حملہ کیا۔ رات کے آگ زنی کے واقعات کے بعد دارالحکومت میں دن میں بھی کشیدگی رہی اور کئی علاقوں جیسے چاند باغ ‘ بھجن پورا ‘ گوکل پوری ‘ موج پور ‘کردم پوری اور جعفر آباد میں دونوں فرقوں کے افراد کے مابین آمنے سامنے کی جھڑپیں ہوئیں اور فسادیوں نے نہ صرف پٹرول بم پھینکے بلکہ فائرنگ بھی کردی۔ رات دیر گئے موج پور علاقہ کے عوام نے شکایت کی کہ پولیس کی جانب سے اشرار کو دیکھتے ہی گولی ماردینے کے احکام کے اعلان کئے گئے ہیں تاہم ڈی سی پی ( نارتھ ایسٹ ) وید پرکاش سوریہ نے اس کی تردید کردی۔ کہا گیا ہے کہ تشدد میں 250 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں 48 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ کہا گیا ہے کہ زخمی عام شہریوں کی نصف تعداد گولیاں لگنے سے زخمی ہوئی ہے۔ جو تشدد پیر کو بی جے پی لیڈر کپل مشرا کی جانب سے لوگوں کو جمع کرنے کے بعد شروع ہوا تھا وہ منگل کو بھی جاری رہا۔ پولیس کی جانب سے امریکی صدر ٹرمپ کے دورہ کے پیش نظر سخت سکیوریٹی کے باوجود یہ تشدد ہوا۔ کہا گیا ہے کہ منگل کی شام میں عوام نے جعفر آباد اسٹیشن کے باہر کا علاقہ خالی کردیا ہے۔ دہلی پولیس پر تغافل برتنے کے الزامات کے دوران وزیر داخلہ امیت شاہ نے دو پہر میں گورنر انیل بائجل ‘ چیف منسٹر اروند کجریوال اور سٹی پولیس کمشنر امولیا پٹنائک کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کیا۔ آئی پی ایس عہدیدار ایس این سریواستو کو دہلی کا نیا اسپیشل کمشنر نامزد کیا گیا ہے تاکہ صورتحال پر قابو پایا جاسکے۔دہلی پولیس کے ترجمان مندیپ سنگھ رندھاوا نے بتایا کہ تشدد کے سلسلہ میں 11 ایف آئی آر درج کئے گئے ہیں۔ زائداز 20 افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے جبکہ صرف ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس کی شناخت شاہ رخ کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس پر الزام ہے کہ اس نے ایک پولیس اہلکار کو بندوق دکھانے کے بعد پانچ راونڈ ہوائی فائرنگ کی تھی۔ پولیس ذرائع نے بتایا کہ مختلف مقامات پر پولیس اور نیم فوجی دستوںکی 67 کمپنیوں کو روانہ کیا گیا ہے۔ دہلی میں جو مناظر کئی دہوں میں دیکھنے میں نہیں آئے تھے وہ اب دیکھنے میں آ رہے ہیں جب جنونی ہجوم اور فسادی لوگوں کو مار پیٹر کر رہے ہیں۔ صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایک صحافی اکشے کو گولی لگنے سے وہ زخمی ہوا ہے اور دواخانہ میں زیر علاج ہے۔ اس کے علاوہ این ڈی ٹی وی کے دو صحافیوں کو بھی فسادیوں نے حملہ کرکے نشانہ بنایا۔ کئی دوسرے صحافیوں کو بھی زد و کوب کرنے کے بعد واپس جانے کو کہا گیا۔ فسادیوں نے گوکل پوری میں دو فائر گاڑیوں کو بھی نقصان پہونچایا یہاں میوہ کی بنڈیوں ‘ رکشا گاڑیوں اور دوسری املاک کو نذر آتش کردیا گیا۔ پولیس نے فسادیوں کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس کے شیلس برسائے۔ فسادی پتھروں ‘ لاٹھیوں اور تلواروں سے لیس تھے اور کئی ہیلمٹس پہنے تھے تاکہ اپنی شناخت بچائی جاسکے۔ کئی مقامات پر سڑکوں اور گلیوں میں جلی ہوئی گاڑیاں دیکھی گئیں ‘ پتھر بکھرے ہوئے تھے اور جلتے ہوئے ٹائر دیکھے گئے۔ گرو تیغ بہادر ہاسپٹل کے عہدیداروں نے بتایا کہ آٹھ افراد جو آج زخمی ہوئے تھے وہ دوران علاج جانبر نہ ہوسکے۔ اس طرح اب تک مرنے والوں کی تعداد بیس ہوگئی ہے۔ دواخانہ کے عہدیداروں نے بتایا کہ زخمیوں میں نصف تعداد ایسی ہے جو گولیاں لگنے سے زخمی ہوئی ہے۔ رات دیر گئے تک بھی جھڑپیں جاری رہنے کی اطلاعات ہیں جبکہ بھجن پورا ‘ کھجوری خاص اور دوسرے مقامات پر فلیگ مارچ بھی کیا گیا۔ امیت شاہ کی جانب سے منعقدہ اجلاس میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ورکرس کو مل کر امن بحال کرنے کیلئے کام کرنا چاہئے اور امن کمیٹیوں کو سرگرم کردینا چاہئے۔ اسکولس کو تعطیل دیدی گئی تھی اور خوفزدہ شہری اپنے گھروں میں ہی رہنے کو ترجیح دے رہے تھے۔ موج پور کے شہریوں کا کہنا ہے کہ وہاں بمشکل ہی کوئی پولیس اہلکار موجود ہے۔ فسادی لوگوں کو دھمکاتے ‘ دوکانوں کو لوٹتے پھر رہے ہیں۔ لوگ یہاں سے تخلیہ کرنے کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں کیونکہ ان میں عدم تحفظ کا احساس ہے۔ ایک اور شہری نے بتایا کہ 1984 کے مخالف سکھ فسادات کے بعد اس طرح کی صورتحال پہلی مرتبہ دیکھی گئی ہے۔دریں اثناء بھارتی وزیر اعظم مودی نے عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے اپنے پیغام میں انہوں نے دہلی کے عوام سے اپیل کی ہے کہ آپسمیں بھائی چارہ قائم رکھیں۔دہلی ہائی کورٹ نے بھی فسادات کانوٹس لینے ہوئے اپنی سماعت میں ریمارکس دئیے ہیں کہ عدالت کی نگرانی میں 1984 جیساسانحہ دوبارہ رونما ہونے کا اجازت نہیں دی جاسکتی