Site icon روزنامہ کشمیر لنک

کورونا وائرس قدرتی ارتقا کا نتیجہ یا کسی لیبارٹری کی ایجاد!

اسلام آباد نئے نوول کورونا وائرس کے حوالے سے یہ شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ لیبارٹری میں تیار کردہ وائرس ہے جسے چین کے ووہان شہر میں بذریعہ ڈاک یا پھر کسی اور ذریعہ سے پھیلایا گیا ہے۔سائنسدانوں کی تحقیق نے اس طرح کے خیالات کو مسترد کردیا ہے۔نئے کورونا وائرس اور متعلق وائرسز کے جینوم سیکونس ڈیٹا کا جائزہ لینے کے بعد سائنسدانوں نے کہا کہ یہ وائرس قدرتی ارتقا کا نتیجہ ہے ۔ساوتھ ایشین وائر کے مطابق ایک میگزین نیچرمیڈیسن کی تحقیق میں شامل سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی متعدد اقسام کے دستیاب جینوم سیکوینس کا موازنہ کرنے کے بعد ہم واضح طور پر کہہ سکتے ہیں کہ یہ یا کورونا وائرس قدرتی عمل کا نتیجہ ہے۔اس تحقیق میں امریکہ کے اسکریپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، آسٹریلیا کی سڈنی یونیورسٹی، ایڈنبرگ یونیورسٹی، کولمبیا یونیورسٹی اور تولین یونیورسٹی کے سائنسدان شامل تھے۔سکریپس میں امیونولوجی اور مائکرو بایولوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور اس تحقیق کے مصنف ، کرسٹیئن اینڈرسن نے کہاکہ معروف کورونواس کے لئے دستیاب جینوم تسلسل کے اعداد و شمار کا موازنہ کرکے ، ہم پختہ طور پر اس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ یہ قدرتی عمل سے شروع ہوا ہے۔کورونا وائرس جراثیموں کے ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو مختلف نوعیت کے امراض کا باعث بنتے ہیں اور اس حوالے سے سب سے پہلا کورونا وائرس 2003 میں نمودار ہونے والا سارس تھا جس سے چین میں وبا کا آغاز ہوا تھا۔ساوتھ ایشین وائر کے مطابق اس نسل کے وائرس سے دوسری بڑی وبا 2012 میں مرس وائرس تھی جو سعودی عرب میں پھیلنا شرع ہوئی تھی۔گزشتہ برس 31 دسمبر کو چینی حکام نے عالمی ادارہ صحت کو نوول کورونا وائرس کی وبا سے آگاہ کیا تھا جسے 20 فروری 2020 کو سارس کوو 2 کا نام دیا گیا جبکہ اس سے ہونے والی بیماری کو کووڈ 19 کا نام دیا گیا۔اب تک اس وائرس سے دنیا بھر میں 2 لاکھ سے زائد افراد متاثر جبکہ 8 ہزار ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔پاکستان کی ایک ماہر پروفیسر عظمیٰ خورشید نے بتایا کہ وبا کے پھیلنے کے ساتھ ہی چینی سائنسدانوں نے اس وائرس کے جینوم کا سیکوینس تیار کرلیا تھا اور ڈیٹا کو دنیا بھر سے شیئر کیا۔اس نئی تحقیق میں سائنسدانوں نے متعدد تحقیقی اداروں کے اشتراک کے ساتھ اس سیکونس ڈیٹا کی کھوج سے اس کی بنیاد اور ارتقا کو جاننے کی کوشش کی۔ساوتھ ایشین وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے وائرس کے اسپائک پروٹین سمیت مختلف حصوں کا تجزیہ کیا اور دریافت کیا کہ اسپائیک پروٹینز میں موجود آر بی ڈی پورشن انسانی خلیات کے باہر موجود ریسیپٹر ایس 2 کو موثر طریقے سے ہدف بناتا ہے۔اسپائیک پروٹین اتنے موثر طریقے سے انسانی خلیات کو جکڑتے ہیں کہ سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ قدرتی نتیجہ تو ہوسکتا ہے انسانوں کے ہاتھوں جینیاتی تدوین کا نہیں۔اس وائرس کے قدرتی ہونے کا ثبوت اس کا مجموعی مالیکولر اسٹرکچر ہے، اگر کوئی ایک کورونا وائرس کو جینیاتی طور پر بدلے، تو وہ اس کی ریڑھ کی ہڈی کو تعمیر کرے گا جو وائرس کی جانب سے امراض پھیلانے کا ذریعہ ہے، مگر اس نئے وائرس میں ریڑھ کی ہڈی کی ساخت چمگادڑوں اور پینگولین میں پائے جانے والے وائرسز سے ملتی جلتی ہے۔

Exit mobile version