Site icon روزنامہ کشمیر لنک

ڈاکٹر سید شجاعت بخاری: کچھ یادیں کچھ باتیں

عالمی شہرت یافتہ کشمیری صحافی ڈاکٹر سید شجاعت بخاری کو قتل ہوئے تین سال گزر گیے۔ انہیں 14 جون 2018 کو سرینگر میں ان کے دفتر کے باہر نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ ان تین سالوں کے دوران کئی مواقع ایسے آئے جب شجاعت بخاری کی کمی انتہائی شدت سے محسوس ہوئی۔ مگر اس دوران اب بھی خود کو یقین دلانے کی کوشش کرتا ہوں کہ شجاعت بخاری اب اس دنیا میں موجود نہیں اور سرینگر سے اب رات گئے یا علیٰ الصبح واٹس ایپ پر کال نہیں آئے گی۔

قتل سے دو روز قبل شجاعت بخاری صاحب نے سرینگر سے فون کیا۔ وہ ‘رائزنگ کشمیر’ کے لیے بھیجے گئے میرے ایک مضمون کے حوالے سے بات کرنا چاہتےتھے۔ مختلف پہلووں پر گفت و شنید کے بعد اتفاق ہوا کے میں اس مضمون میں مزید تفصیلات شامل کر کے عید کے بعد دوبارہ بھیجوں۔ کال منقطع کرنے سے پہلے میں نے ایک بار پھر وہی سوال دہرایا جو گذشتہ ‘دوسالوں کے دوران درجنوں بار ان سے پوچھ چکا تھا۔ ‘سر! سرینگر کب بلا رہے ہیں؟’ ‘یار اب تو مجھے خود نہیں معلوم میں کب تک یہاں ہوں۔’ اس بار ان کا جواب بہت ہی غیر متوقع تھا۔

شجاعت بخاری صاحب سے میرا غیر رسمی تعارف 2010 میں فیس بک کے ذریعے ہوا۔ ہم اکثر فیس بک پوسٹوں پر تبصروں میں اتفاق و اختلاف کرتے اور کبھی کبھار ان باکس میں پیغامات کا تبادلہ بھی ہو جاتا۔ تاہم یہ تعلق فیس بک تک ہی رہا۔ لائن آف کنٹرول پر کوئی غیر معمولی واقعہ ہوتا تو اس طرف کی صورتحال جاننے کے لیے وہ ضرور رابطہ کرتے۔ 2014 میں تعلیم کی غرض سے امریکہ میں قیام کے دوران ایک ریسرچ پیپر کی تیاری کے سلسلے میں سرینگر میں کئی واقف کاروں کو ای میلز بھیجیں، مگر جواب صرف شجاعت بخاری کا آیا۔ کچھ دنوں بعد میں نے سکائپ پر ان کا تفصیلی انٹرویو کیا اور لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے تک سوال و جواب کے دوران انہوں نے مختلف موضوعات پر راہنمائی کی۔ اس انٹرویو کے بعد سوشل میڈیا پر ہونے والا غیر رسمی تعارف رسمی شناسائی میں بدلا۔ شائد یہ شناسائی بھی سوشل میڈیا تک ہی محدود رہتی اگر مشترکہ دوست ارشاد محمود اس تعلق کو باہمی ملاقات کے ذریعے دوستی میں نہ بدلتے۔ شجاعت بخاری سے پہلی ملاقات کا اہتمام ارشاد محمود صاحب کا وہ تحفہ ہے جس کا بدلہ میں زندگی بھر نہیں چکا سکوں گا۔

کئی سالوں کے وقفے کے بعد مجھے دوبارہ باقاعدہ لکھنے لکھانے کی طرف مائل کرنے میں ڈاکٹرشجاعت بخاری اور ارشاد محمود کا ہاتھ ہے۔ ارشاد محمود ہی کے توسط سے میں نےشجاعت بخاری کے انگریزی اخبار ‘رائزنگ کشمیر’ اور پھر اردو مجلے ‘پرچم کشمیر’ کے لیے کبھی کبھار لکھنا شروع کیا۔ تاہم جکارتہ (انڈونیشیا) میں شجاعت بخاری سے پہلی بالمشافہ ملاقات کے بعد اس میں تسلسل آیا۔ ہر ہفتے، مہینے وہ کسی نہ کسی موضوع پر لکھنے کی فرمائش کرتے اور انداز ایسا دل نشین اور ترغیبانہ کہ چاہ کر بھی انکارنہ کر پاتا۔ جب بھی ‘رائزنگ کشمیر’ یا ‘پرچم کشمیر’ میں میری کوئی تحریر شائع ہوتی تووہ نہ صرف ایک تعریفی نوٹ کے ساتھ سوشل میڈیا پر شیئر کرتے بلکہ اخبار کی کاپیاں بھی محفوظ رکھتے اور کسی نہ کسی طرح مجھ تک پہنچاتے۔ ان کی بھیجے اخبار تاعمریادوں کو تازہ کرتے رہیں گے۔

اپنے قتل سے کچھ عرصہ قبل آخری بار شجاعت بخاری اسلام آباد میں جس کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے، میں بوجوہ اس میں شامل نہیں تھا۔ کانفرنس کے اختتام پر انہوں نے واٹس ایپ پر پیغام بھیجا۔ ‘میں اسلام آباد میں ہوں، آپ کدھر غائب ہیں؟’ میں نے کال کی تو انہوں نے اسی شام ملاقات کے لیے آنے کو کہا۔ شام کو جب اسلام آباد کلب پہنچا تو ارشاد محمود صاحب بھی موجود تھے۔ تھوڑا تاخیر سے پہنچنے کی وجہ سے یہ ملاقات بہت ہی مختصر رہی۔ وہ مظفرآباد میں ‘رائزنگ کشمیر’ کا بیورو آفس بنانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ کھانے کے فوراً بعد شجاعت بخاری صاحب پہلے سے طے شدہ کسی دوسری ملاقات کے لیے روانہ ہو گئے۔ جاتے ہوئے کہنے لگے آپ تھوڑا دیر سے آئے ہیں اس لیے تفصیلی بات اب فون پر ہی ہو سکے گی ۔ اس روز تاخیر سے پہنچنے کا دکھ آج تک قائم ہے۔

شجاعت بخاری صرف صحافی نہیں، ایک پائے کے ایڈیٹر، بہترین مقرر، استاد اور امن کے داعی ایک بے مثال سماجی کارکن بھی تھے۔ صحافت ہی نہیں ہر محاذ پر چومکھی لڑتے تھے۔ کشمیر کے مطلع صحافت پر طلوع ہوئے اور بتدریج چھا گئے اور عالمی صحافت میں برصغیر کی پہچان بن کر ابھرے۔ دنیا بھر میں دوست بنائے مگر اردگرد موجود دشمنوں کی آنکھوں میں کانٹا بن کر کھٹکنے لگے۔ شجاعت بخاری کو تحریر اور تقریر کے فن پر عبور حاصل تھا۔ دلیل سےلکھنا اور مثالوں سے واضح کرنے کا فن ان پر ختم تھا۔ تنازعہ کشمیر پر ایک واضح اور دو ٹوک موقف رکھتے تھے۔ اور اس موقف کا کھلم کھلا اظہار کرتے تھے۔ ہندوستانی میڈیا کا ایک پورا طبقہ ان کا دشمن بنا پھرتا تھا۔ مگر کنٹرول لائن کے اس پار پاکستان میں بھی ان سے اختلاف کرنے والوں کی کمی نہیں تھی۔

شجاعت بخاری نے ہمیشہ سے ہی کشمیر اور کشمیریوں کے حق میں بات کی۔ وہ جہاں بھی گئے کشمیر میں جاری تشدد کے خلاف آواز اٹھائی۔ مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل کے متمنی، بیباک اور بے خوف صحافت کے علمبردار تھے۔ انہوں نے اپنے صحافتی پیشے سے ہمیشہ انصاف کیا۔ احباب کے بقول شجاعت بخاری کا قلم بندوق سے بھی تیز چلتا تھا۔ اگرچہ ان کے بھائی ہندنواز جماعت کے ساتھ وابستہ ہیں اور ان کے قتل کے وقت بھی وہ جموں وکشمیر کے ریاستی وزیر تھے مگرخودشجاعت بخاری ریاست جموں و کشمیر کی سیاست کےحوالے سےہمیشہ غیرجانبدار رہے۔ ان کا شمارحکومت کے سخت ترین ناقدین میں ہوتا تھا۔

شجاعت بخاری کشمیر میں امن مذاکرات کے حامی تھے۔ اپنے قتل سے قبل انہوں نے انڈیا کی جانب سے رمضان میں حریت پسندوں کے ساتھ یک طرفہ سیز فائر کو خوش آئند قراد دیتے ہوئے فریقین کی جانب اس اس کی پاسداری اور اس سلسلے کو رمضان کے بعد بھی جاری رکھنے حمائت کی تھی۔  وہ تمام مسائل کا حل بات چیت سے تلاش کرنے کے داعی تھے۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ حالات چاہے کیسے بھی ہوں بات چیت کا سلسلہ نہیں رکنا چاہیے۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مذاکرات کی بحالی اور اس میں کشمیریوں کی با معنی شمولیت کے لیے ہر سطح پر کوششیں کرتے تھے۔ ٹریک ٹو اور ٹریک تھری ڈپلومیسی کے کئی مراحل میں اپنے موثر کردار کی وجہ سے اکثر اوقات مختلف حلقوں کی تنقید کا نشانہ بنتے۔ کنٹرول لائن کے آرپار منقسم خاندانوں کے درمیان روابط کی بحالی، مختلف سفری اور تجارتی راستے کھولنے اور کشمیریوں کو آزادانہ طور پر کنٹرول لائن کی دونوں جانب مذہبی اور تاریخی مقامات تک رسائی دینے کے حامی تھے۔ اپنی موت سے قبل انہوں نے کشمیری پنڈتوں کی واپسی اور انہیں شاردہ تک رسائی دینے کے حوالے سے بھی کام کیا۔

گذشتہ سال  پٹھان کوٹ کی ایک عدالت نے کٹھوعہ (جموں کشمیر) کی آٹھ سالہ آصفہ کے ریپ اور قتل میں ملوث چھ ملزمان کو سزائیں سنائیں تو ڈاکٹر سید شجاعت بخاری اس شدت سے یاد آئے کہ ‘پلکوں کا حلقہ توڑ کر آنسو نکل پڑے۔’ آصفہ قتل کیس کو کٹھوعہ کے مندر سے نکال کر بین الاقوامی سطح پر پہنچانے والے بنیادی کرداروں میں ایک نام شجاعت بخاری کا بھی تھا۔ جب تک زندہ تھے مختلف فورمز پر آصفہ کا مقدمہ جی و جان سے لڑا اوراس بہیمانہ ظلم کے پیچھے چھپے مذہبی اور سیاسی کرداروں کو بے نقاب کیا۔ اپنی زندگی میں اس کو انصاف ملتا نہ دیکھ سکے تاہم یقیناً اس فیصلے سے ان کی روح کو بھی تسکین ملی ہو گی۔

‘ہو جس سے اختلاف، اسے مار دیجیے’ کی ریت پرانی ہے۔ جو لوگ شجاعت بخاری کی سوچ سے اختلاف رکھتے تھے اور ان کے دلائل کا کوئی عقلی جواب نہیں دے پائے وہ انہیں اپنے نظریاتی اور عسکری کاروبارکے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے اس موثر آواز کو دبانےکا جو منصوبہ بنایا وہ شجاعت بخاری کے قتل پر منتج ہوا۔ شجاعت بخاری کی آواز بلاشہ جموں وکشمیر کی سب سےتوانا آواز تھی جو کشمیر، ہندوستان اور پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی گونجتی تھی۔ اس آواز کو خاموش کرنے والے بخوبی جانتے تھے کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔

شجاعت بخاری کو کس نے قتل کیا اور اس کے پیچھے کیا مقصد کارفرما تھا یہ ایک ایسا راز ہے جس پر شاید ہمیشہ مصلحت کا پردہ ہی پڑا رہے۔ کیونکہ وادی جموں و کشمیر میں جس گن کلچر کی حکمرانی ہے، اس میں اصل مجرم تک پہنچنا مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ ان پرگولی کس نے چلائی یہ معمہ شائد کبھی حل نہ ہو سکے مگر ان کے قتل کی راہ ہموار کرنے کے لیے جو مہم چلائی گئی اس میں اس پار اور اس پار والوں کا برابر ہاتھ ہے۔ شجاعت بخاری کا خون پورے برصغیر میں پھیلا ہے۔ اس کے چھینٹے ہندوستان میں بسنے والوں کے دامن پر بھی ہیں اور پاکستان کے مکینوں کی قبا پر بھی۔ ہند نوازوں کے خرقے بھی سرخ ہیں اور آزادی پسندوں کے جبے بھی لال۔ کہیں نہ کہیں ہم سب کا دامن داغدار ہے۔

Exit mobile version