جن پاکستانیوں کے نام پنڈورا پیپرز میں شامل ہیں ان میں وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین، سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے بیٹے علی ڈار، چوہدری مونس الہٰی، وفاقی وزیر فیصل واوڈا، وفاقی وزیر خسرو بختیار، سابق وزیر پنجاب علیم سمیت کئی دیگر اہم شخصیات شامل ہیں۔
عبداللہ جان| انڈیپنڈنٹ اردو
تحقیقاتی صحافیوں کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹیو جرنلٹس (آئی سی آئی جے) نے ’پنڈورا پیپرز‘ کے نام سے ایک تحقیق ریلیز کی ہے، جس میں بیرون ملک کمپنیاں رکھنے والی دو درجن سے زیادہ پاکستانی شخصیات کے نام شامل ہیں۔
جن پاکستانی شخصیات کے نام پنڈورا پیپرز میں شامل ہیں ان میں وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین، سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کے بیٹے علی ڈار، چوہدری مونس الہی، وفاقی وزیر فیصل واوڈا، وفاقی وزیر خسرو بختیار، سابق وزیر پنجاب علیم خان، سابق وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن، سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی میجر جنرل (ر) نصرف نعیم، نیشنل بنک آف پاکستان کے صدر عارف عثمانی، جنرل خالد مقبول کے داماد احسن لطیف، ایمبیسیڈر ایٹ لارج فار فارن انویسٹمینٹ علی جہانگیر، جنرل مشرف کے سابق ملٹری سیکریٹری لیفٹیننٹ جنرل شفاعت اللہ شاہ، نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ کے ڈائریکٹر جنرل عدنان آفریدی، وزیر اعظم کے سابق معاون خصوصی وقار مسعود خان کے بیٹے عبداللہ مسعود، جنرل (ر) افضل مظفر کے بیٹے حسن مظفر، ابراج گروپ کے عارف نقوی، سابق سیکریٹری دفاعی پیداوار لیفٹیننٹ جنرل تنویر طاہر کی اہلیہ زہرا تنویر، جنرل (ر) علی قلی خان کی ہمشیرہ شہناز سجاد، ایگزیکٹ اور بول ٹی وی کے مالک شعیب شیخ، ائیر مارشل (ر) عباس خٹک کے بیٹے احد خٹک اور عمر خٹک، امپیریئیل شوگر ملز کے مالک نوید مغیس شیخ، تاجر بشیر داود، آس حفیظ (مرچنٹ) اور بزنس مین عارف شفیع ہیں۔
مندرج تفصیلات کے مطابق لیک ہونے والی دستاویزات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے قریبی احباب میں شامل کئی افراد جن میں ان کی کابینہ کے ارکان، ان ارکان کے اہل خانہ اور مالی حمایت فراہم کرنے والے بھی لاکھوں ڈالر مالیت کی کمپنیوں کی خفیہ ملکیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ فوجی عہدیدار بھی ایسے افراد میں شامل ہیں۔
تاہم ان دستاویزات میں عمران خان کی ذاتی حیثیت میں کسی آف شور کمپنی کی ملکیت سامنے نہیں آئی۔
آف شور کمپنیوں کی ملکیت رکھنے والے دیگر افراد میں وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کے رکن اور وزیر خزانہ شوکت ترین، ان کے اہل خان اور عمران خان کے سابق مشیر وقار مسعود خان کے بیٹے بھی شامل ہیں۔
ان کے علاوہ تحریک انصاف کے ڈونر عارف نقوی بھی آف شور کمپنیوں کی مدد سے لین دین کرتے رہے ہیں۔ ان کے خلاف امریکہ میں بھی فراڈ کے الزامات ہیں۔
دستاویزات میں چوہدری مونس الہی کا نام بھی سامنے آیا ہے جو کہ عمران خان کی حکومت کے اہم اتحادی ہیں۔ مونس الہی نے اس حوالے سے آئی سی آئی جے کی متعدد درخواستوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ آج ان کے خاندان کے ایک ترجمان نے آئی سی آئی جے کے میڈیا پارٹنر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سیاسی انتقام کی بنیاد پر گمراہ کن تشریحات اور مواد کو بدنیتی کی بنیاد پر پھیلایا جا رہا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ مونس الہی کے خاندان کے اثاثے قانون کے مطابق اعلان شدہ ہیں۔
دوسری جانب مملکت پاناما کو میں مالی رازداری سے متعلق ایک نئے انکشاف کی اشاعت سے خوف لاحق ہے کہ یہ ایک بار پھر بطور ’ٹیکس ہیون‘ ملک کی ساکھ کو داغ دار کر سکتا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پاناما کی حکومت نے میڈیا کو ایک خط میں بتایا ہے کہ اتوار کو سامنے آنے والے ’پنڈورا پیپرز‘ ماضی قریب کے ’پاناما پیپرز‘ کی طرح ملک کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
پاناما کی حکومت نے ایک قانونی فرم کے ذریعے بین الاقوامی کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کو بھیجے گئے خط میں کہا کہ ’(اس سے) ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔‘
خط میں خبردار کیا گیا ہے کہ ایسی ’کوئی بھی اشاعت‘ ملک کے ممکنہ ٹیکس ہیون ہونے کے ’غلط تصور‘ کو تقویت دیتی ہے جو ’پاناما اور اس کے شہریوں کے لیے تباہ کن نتائج پیدا کرے گی۔‘
آئی سی آئی جے کے مطابق یہ رپورٹ ’دنیا بھر سے ایک کروڑ 19 لاکھ دستاویزات کے لیک ہونے کی بنیاد پر ’مالی رازداری کا اب تک کا سب سے بڑا انکشاف‘ ہے۔
آئی سی آئی جے نے کہا کہ ’پنڈورا پیپرز‘ کی تحقیقات 117 ممالک میں 600 سے زائد رپورٹرز کے کام کا نتیجہ ہیں۔
پاناما کی حکومت کی جانب سے اس خط میں کچھ ایسی اصلاحات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جو انہوں نے حالیہ برسوں میں کی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ یورپی یونین کی ٹیکس ہیونز کی فہرست میں شامل ہے۔
پانامہ حکومت کو خدشہ ہے کہ پاناما ایک بار پھر عالمی ٹیکس ہیون سکینڈل کا مرکز بن جائے گا جیسا کہ 2016 میں آئی سی آئی جے کے ’پاناما پیپرز‘ کے انکشاف کے بعد ہوا تھا۔ اس کے بعد سے پاناما کی حکومت نے مختلف قانونی اصلاحات کی ہیں تاکہ بینکنگ کنٹرول کو مضبوط کیا جا سکے اور ٹیکس چوری کی سزا قید کی صورت میں دی جا سکے۔