Site icon روزنامہ کشمیر لنک

وادی نیلم میں اخروٹ کی کاشت کا آغاز کیسے ہوا؟

کاروباری پیمانے پر اخروٹ کی کاشت کا آغاز 1960 کی دہائی میں ہوا اور اخروٹ کے زیادہ تر باغات اٹھمقام، شاکوٹ، سالخلہ وغیرہ میں لگائے گئے۔ فوٹو جلال الدین مغل

تحریر و تحقیق: راجہ امیر خان، وادی نیلم

ایک اندازے کے مطابق وادی نیلم کا 70 فیصد رقبہ اخروٹ  کی کاشت کے لئے موزوں ہے۔ اس سال ایگری ٹور ازم پراجیکٹ کے تحت وادی نیلم کے سیاحتی مقام نیلم میں آخروٹ میلہ کا انعقاد کیا گیا، جہاں اعلی اقسام اخروٹ کے نمونے نمائش کے لیے جمع کیے گئے۔

 زرعی ماہرین کے مطابق وادی نیلم میں یونین کونسل باڑیاں سے یونین کونسل نیلم/ددھنیال تک کے علاقے اخروٹ کی کاشت کے لیے انتہائی موزوں  ہیں۔

آخروٹ  ایک نقد آور پھل ہے اور وادی نیلم کے کئی کاشتکاراس پھل سے بڑے پیمانے پر مستفید ہوتے ہیں۔ تاہم یہ سلسلہ زیادہ پرانا نہیں۔ تقسیم کے وقت وادی نیلم کے محض چند گاوں میں اخروٹ کے اکا دکا درخت تھے اور ان میں س بھی بیشتر جنگلی اخروٹ تھے جن کا چھلکا سخت  ہونے کی وجہ سے ان کی قدر نہ ہونے کے برابر تھی۔

فوٹو بشکریہ راجہ امیر خان

معروف تاریخ دان اور مصنف محمد اشرف علیگ جو اس زمانے میں اس علاقے میں تحصیلدار کے طور پر کام کر چکے ہیں نے اپنی تصنیف ‘وادی کشن گنگا’ میں لکھتے ہیں  کہ اس زمانے میں دراوہ (نیلم ویلی) میں پیدا ہونے والا اخروٹ کا پھل کشمیراور ہزارہ میں فروخت کیا جاتا تھا۔

ساٹھ کی دہائی میں محکمہ ذراعت نے اٹھمقام میں پھلدار پودوں کی افزائش کے لئے نرسری قائم  کی جہاں دیگر پھلدار پودوں کے ساتھ ساتھ کاغذی اخروٹ کے پودے بھی اگانا شروع کیے۔ اس سے قبل اس علاقے میں محدود تعداد میں اخروٹ کے درخت موجود تھے۔

فوٹو بشکریہ راجہ امیر خان

اٹھمقام میں نرسری کے قیام کے بعد اخروٹ کی کاشت میں تیزی آئی۔ ایفاڈ پراجیکٹ کے تحت محکمہ ذراعت نے اعلیٰ اقسام اخروٹ کے لاکھوں پودے مقامی زمینداروں میں تقسیم کے گے۔ اس مرحلے پر جدید ٹیکنالوجی  اپنا کر اخروٹ پرکاغذی نسل کی پیوند کاری شروع کی گئی۔ پیوند کاری سے کم عمر پودوں پھل دینا شروع کیا تو کاشتکاروں کو منافع ملنے لگا اور ان کی دلچسپی اس کی پھل کی کاشت میں بڑھنے لگی۔

فوٹو بشکریہ راجہ امیر خان

 رفتہ رفتہ آخروٹ کا کاروبار کرتا گیا اور اس کی مقامی سطح پر فروخت کے ساتھ سات زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے مقامی لوگ گری نکاسی کرکے مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت کرنا شروع کی۔

 گری نکاسی کے سبب گھر میں بیٹھی خواتین کو بھی اخروٹ کے موسم میں روزگار کا موقع میسر آیا۔ حالیہ سالوں میں اس سلسلے میں کافی تیزی آئی ہے اور اب وادی نیلم کا بیشتر اخروٹ یہاں سے گری کی صورت میں نکاسی ہوتا ہے، تاہم روائتی طوریقوں سے گری نکاسی میں نہ صرف سخت محنت درکار ہے بلکہ اس میں اکثر اوقات گری غیر ضروری طور پر ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے اور اس کوالٹی گرنے کے سبب اس کی قیمت بھی کم ہو جاتی ہے۔  گری نکاسی اور مارکیٹنگ میں ابھی مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے۔

فوٹو بشکریہ راجہ امیر خان

وادی نیلم کے شاہ کوٹ گاؤں کے رہائشی گل افسر جنجوعہ اور ان کے بھائی قاسم جنجوعہ پچھلے تین چار سال سے گری کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ گل افسر جنجوعہ نے بتایا کہ وہ اس کاروبار سے خاطر خواہ منافع کما رہے ہیں۔ خاص طور پر گری کے کاروبار میں راولپنڈی مارکیٹ میں اول نمبر کے کاروباریوں میں شامل ہیں۔ گری نکاسی کے مختلف مرحلوں سے آگاہی دی۔

وادی نیلم میں پچاس فیصد سے زائد درختان آخروٹ گری کی نکاسی کے لئے موزوں ہیں۔ لیکن ابھی بھی اسی فیصد تقریباً چھ ہزار من بشکل آخروٹ پاکستان کی منڈیوں میں فروخت ہو رہا ہے۔ گری نکاسی میں بھی بہتری کی اشد ضرورت ہے۔ گری کی گریڈینگ اور پیکنگ پر توجہ دی جائے تو منافع میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے۔

فوٹو بشکریہ راجہ امیر خان

بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر زراعت کی ترقی پر خصوصی توجہ مرکوز کی جانا چاہئے تاکہ مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہو سکیں۔

Exit mobile version