Site icon روزنامہ کشمیر لنک

کھاوڑہ میں بیماریوں کی شرح میں اچانک اضافہ کیوں ہو رہا ہے

تحریر: راجہ محمد سجاد خان

حلقہ کھاوڑہ میں اس وقت کئی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں جن میں کینسر،دل، گردوں اور پھیپھڑوں کی بیماریاں شامل ہیں۔ ان بیماریوں کی شرح میں  آئے روز  خوفناک حد تک کا اضافہ ہو رہا ہے۔ مگر اس کے باجود ریاست کے ادارے ارباب اختیار بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ محکمہ صحت کو بہتر بنانے اور عوام کو سہولیات کی غرض سے ملازمین اور افسران کی ایک فوج ظفر موج موجود ہے۔  یہ لوگ جو اس غریب عوام کے ٹیکسز سے مراعات اور تنخواہیں لے رہے لیکن اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں غفلت کے مرتکب ہورہے ہیں ۔

کھاوڑہ میں قائم بنیادی مراکز صحت ،ڈسپنسریاں سٹاف کی کمی اور ادوایات کی عدم دستیابی کے باعث عملاً غیر فعال ہیں۔ بیورکریسی اور ایوان اقتدار میں بیٹھے لوگ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بجائے محض تنخواہیں اور مراعات حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ ریاست کے اداروں کو چلانے والے بیورکریسی افسر شاہی اور سیاستدانعوام کو سہولیات دینے کے بجائے اپنی مراعات کے چکروں میں پڑے رہتے ہیں۔ مجموعی طور پر آزاد کشمیر کے دیہی علاقوں میں  صحت سے متعلق انفراسٹرکچر تباہ حالی کا شکار ہیں۔ اس وقت ایک ڈاکٹر جو کہ سرکاری طور پر مراعات تنخواہ وغیرہ لیتا ہے لیکن اپنے فرائض سے غفلت برتا رہا ہوتا ہے اور اسکی نظر پرائیوٹ بزنس میں ہوتی۔ کہنے کی حد تک تو ریاست میں صحت کی تمام سہولیات موجود ہیں، تاہم عملا ایسا کچھ نہیں۔ غریب عوام در بدر کی ٹکروں کے بعد انہی سرکاری ڈاکٹر وں ماہرین امراض کے پرائیوٹ کلینک اور ہسپتالوں میں جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

 دیہی علاقوں کے سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے کئی مریض شہر کے ہسپتالوں تک نہیں پہنچ سکتے اور راستے میں دم توڑ دیتے ہیں۔ حلقہ کھاوڑہ شرقی کی یونین کونسل کٹکیر کے علاقے رحیم کوٹ میں بنیادی مرکز صحت ہے اور جہاں سٹاف ہے اور نہ ہی ادوایات میسر ہیں۔ شہری دربدر کی ٹھوکروں پر مجبور ہیں۔ راقم نے اس ہسپتال بارے پرنٹ میڈیا میں ایک سٹوری لکھی جس پر گو نوٹس لیا گیا لیکن اس نوٹس کا ابھی تک کوئی فائدہ نہیں ہوسکا۔ پتہ چلا کہ یہاں پر لیڈی ڈاکٹر ،میڈیکل آفیسر کی پوسٹ نکلی ہی نہیں ہے جبکہ باقی سٹاف بھی ادھر ادھر ہی ہے۔

اس بی ایچ یو میں ایمبولینس ہے اور دو ڈرائیور بھی تنخواہ لیتے ہیں لیکن یہ ایمولینس بھی کٹھارہ بنی ہوئی ڈرائیور صاحبان اپنی ذاتی کاروباروں میں مصروف ہیں بس ویکسینر ہیں یا ایک ٹیکنیشن ہے باقی عملہ ہے ہی نہیں جو ہے وہ گھر پر آرام کررہا ہے ۔اور یہاں ادوایات بھی نہیں جب ڈاکٹرز ہی نہیں تو ادوایات کہاں سے آئیں گئی ۔پھر اب مسئلہ یہ ہے کہ ان صحت کے مراکز میں سٹاف اور دیگر مسائل حل کرنے کی ذمہ داری محکمہ کے ذمہ داران کی بنتی تھی انہوں نے بھی غفلت کا ارتکاب کیا اور وہیں پر یہاں سے منتخب ایم ایل ایز صاحبان جو دونوں بزرگ ہیں اور یہاں سے ایم ایل اے منتخب ہونے کے بعد وزیر بھی رہے۔

گزشتہ سالوں کی بات کی جائے تو اس حلقہ سے دو ممبران کشمیر کونسل ،ایک وزیر حکومت ایک سابق چیف جسٹس اور بیسیوں بیورکریٹ جن کا تعلق ا س حلقہ سے ہے لیکن کسی کو توفیق نہیں ہوئی کے اس حلقہ کے صحت جیسے بنیادی ضرورت کے مسئلہ کو حل کیا جائے۔ اس صحت مراکز میں چوبیس گھنٹے تو درکنار آٹھ گھنٹے کے لیے سہولت دینے کے لیے سٹاف تک دستیاب نہیں۔ ایک طرف مذکورہ بالا کئی موذی امراض کی شرح میں خوفناک اضافہ اور دوسری طرف سرکاری سہولیات کا فقدان ہے ۔اس وقت اس چھوٹے سے خطے میں جہاں پر اتنی فوج ظفر موج کی ضرورت نہیں جہاں وسائل کی کمی نہیں لیکن یہ وسائل غریب عوام کے بجائے افسر شاہی بیورکریسی اور ارباب اختیار کے شاہانہ زندگی پر خرچ ہوتے ہیں۔ اس ریاست کا یہ عالم ہے کہ کسی غریب حقدار کو علاج کے لیے رقم دستیاب نہیں لیکن اس ریاست کے بیورکریٹ اور حکمران کو نہ صرف یہاں بلکہ ریاست اور ملک سے باہر علاج کی بہترین سہولیات دستیاب ہیں۔

مذکورہ بالا سطور میں صرف ایک یونین کونسل کے ایک بنیادی مرکز صحت کی حالت زار پر لکھا گیا اور اس حلقہ میں لگ بھگ تمام ہی صحت کے مراکز کی یہی حالت ہے۔ جس طرح بات کی کہ اس وقت موذی امراض میں اضافہ ہورہا ہے وہیں محکمہ صحت اور حکومتی غفلت کی وجہ سے اس کے روک تھا م کے بجائے اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ اور یہ ادارے ان امراض کی وجوہات اور ان کے علاج سے بلکل ہی غافل ہیں اور اس وقت ایک بڑی تعداد کینسر اور امراض قلب کا شکار مریض موت کا شکار ہوچکے ہیں اور ان میں نوجوانوں کی تعدا د خوفناک حد تک زیادہ ہورہی۔ اس وقت ان امراض کی اگر دیکھا جائے تو صاف پانی کی عدم دستیابی اور خوراک میں ملاوٹ سب سے بڑی وجہ ہے۔

ارباب اقتدار اور ریاست کے اداروں کو صحت کے معاملہ میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اس مسئلہ کے حل اور صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لیے اپنا کردار ادا کریں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ دیہی علاقوں میںقائم مراکز صحت میں چوبیس گھنٹے سروس اور ڈاکٹرز کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے اور ساتھ کی ایمرجنسی سہولیات کو یقینی بنایا جائے تاکہ مریضوں کو دور دارز شہروں میں علاج کے لیے جانے تک ان کی زندگی محفوظ کی جاسکے۔ دیہی مراکز صحت میں جہاں چوبیس گھنٹے سروس اور سٹاف اور ادوایات کی کمی کو پورا کیا جائے ساتھ ہی دل کے امراض کی ایمرجنسی طور پر کوئی انتظام کیا جانا ضروری ہے۔ جس طرح حلقہ کھاوڑہ مسائلستان بنا ہوا س کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہےاور حکومتی اور اداروں کی سطح تک سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور بالخصوص دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات کو ٹھیک کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔


محکمہ صحت اور یہاں سے منتخب ایم ایل اے اور تمام جماعتوں کے امیدوار جنہوں نے اس حلقہ سے عوام کا ووٹ لیا ہے انہیں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ حالیہ دنوں میں محکمہ صحت کے ایک ذمہ دار آفیسر نے میری سٹوری پر کٹکیر میراسرو کو وزٹ کیا اور ان سے تفصیلی بات چیت بھی ہوئی اور انہوں نے بھی بتایا کہ حلقہ کے لوگ اپنا کردار ادا کریں اور انہوں نے بھی اعتراف کیا کہ ان دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

اس حلقہ میں ایک اور مسئلہ بھی عطائی ڈاکٹرز بھی ہیں جو کہیں میڈیکل سٹورز میں کام کرکے یا کسی ڈاکٹر کے ساتھ کچھ عرصہ لگانے کے بعد یہاں باقاعدہ کلینک کھول کر اور کچھ گمنام طور پر علاج کررہے ہیں اور انہوں نے عوام کی نفسیات اور ہائی پاور ادوایات دیکر مریضوں کو وقتی سکون دلادیتے اور مریض خوش ہوجاتا ہے لیکن وہ ان سخت ادوایات کے مضر اثرات سے واقف نہیں ہوتے اور اسی طرح موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

ڈرگ انسپکٹر نے کٹکیر دورہ میں تفصیلات سے بات کی اور کہا کہ ہماری سزا جزا کے نظام میں سقم ہے جس کی وجہ سے کئی لوگ پھر چھوٹ جاتے ہیں ۔اس وقت باخبر ذرائع سے معلوم ہوا کہ اس وقت کٹکیر میں کئی ایک بغیر لانسنس میڈیکل سٹور چل رہے اور ان میں بھی معیار نہیں ہے اور ناقص ادوایات ہیں اور ایسی ادوایات ہوتی ہیں جو سکون فراہم کرتی ہیں لیکن یہاں کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں اور ایسے مافیا کے پیچھے سیا سی اثر رسوخ کارفرما ہوتا ہے۔ ایک اور مسئلہ جس پر بات ہوئی کہ اس وقت تعلیم سمیت صحت کے شعبہ میں بھی ایک مسئلہ ہے کہ ڈاکٹرز اور دیگر اس شعبہ سے منسلک لوگ اپنا سیا سی اثر رسوخ استعمال کرتے ہیں اور اپنی مرضی سے آتے جاتے ہیں اگر ان کیخلاف کوئی دیانتداری سے کاروائی کرے تو وہ بچارہ آفیسر خودمشکلات کا شکار ہوجاتا ہے۔

اس کے ساتھ خواتین ڈاکٹرز ہوں یا دیگر سٹاف وہ بھی اپنے دور سٹیشن میں ڈیوٹی سے گریزاں ہوتے اور جاکروزیر مشیر سے نرمی لکھوا لاتے ہیں جب کہ یہ وزیر مشیر اور وزیراعظم سیکرٹریز بھی نرمی لکھتے یا سفارش لکھتے ہوئے اصل مسئلہ کوعجلت میں چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ ایک حلقہ کی ایک یونین کونسل کے ایک ہسپتال کا حال ہے باقی پھر دیکھ لیں۔ ہمارے منتخب نمائندے اور بیورکریسی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کررہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے عوام رل جاتی ہے اور مریض اور ان کے ساتھ آئے لواحقین مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔

نومنتخب حکومت بھی بڑے بڑے دعووں کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ ان مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے یا پھر اپنے پیش رو حکمرانوں اور بیوروکریٹ کی طرح بس سہانے خواب دیکھا کر اور اپنی مراعات اور سروس مکمل کرکے گھر چلے جائیں گئے۔ ان تمام ذمہ داروں کو ایک بار خوف خدا کرنا چاہیے کہ وہ دنیا کی عدالت سے تو بچ سکتے ہیں لیکن ایک عدالت اوپر ہے جہاں جوابدہی بہت مشکل ہے جہاں آپ کے ذرے ذرے کا حساب لیا جائے گا ۔

Exit mobile version