Site icon روزنامہ کشمیر لنک

سفرنامہ: آئیں گگئی چلیں

وادی نیلم آزاد کشمیری قدرتی حسن سے مالا مال ہے قدرت خداوند نے یہاں بلند بالا پہاڑ، ندی نالے، آبشاریں، دلفریب جھیلیں، گلیشرز، چراگاہیں، جنگلات اور جنگلی حیات عطا کیے ہیں۔ نیلم ویلی میں سیاحت کے لیئے بے شمار جگہیں ہیں۔ آج میں آپ کو ایسے علاقے کے متعلقہ معلومات دینے لگا ہوں جہاں بہت کم سیاح گئے ہیں۔ جی ہاں یہ حسین وادی، گگئی کے نام سے جانی جاتی ہے۔

گگئی وادی گریس کی سب سے بڑی چراگاہ ہے جو وادی نیلم کے آخری حصے میں، سطح سمندر سے 6000 سے 13000 فٹ بلندی پرواقع ہے۔ یہ چراگاہ دو بڑے نالوں، ایک چھوٹی گگئی (ددگئی نالہ) اور دوسری بڑی گگئی نالہ پے محیط ہے۔ اس کے مشرق میں قمری استور، مغرب میں تاؤبٹ، مشرقی جنوب میں منحوس کنٹرول لائن و مقبوضہ جموں وکشمیر جبکہ شمال میں گجر نالہ پھولاوئی اورریاٹ استور کے علاقے واقع ہیں۔ سردیوں میں یہاں چھ سے آٹھ فٹ تک برف پڑتی ہے اور اس موسم میں زمینی راستے بلاک ہو جاتے ہیں۔ گرمیوں میں یہاں دودھنیال، شاردہ اور وادی گریس کے مقامی لوگ مال مویشی لیکر جاتے ہیں۔ جبکہ یہاں آزادکشمیر اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے بڑی تعداد میں بکروال مال مویشی لے کرآتے ہیں۔ مئی سے لیکر ستمبر آخر تک لوگ یہاں مال مویشی کے ساتھ ہوتے ہیں۔

تو آئیے گگئی سیر کو چلتے ہیں

دوستو! اس علاقےکو دیکھنے کے لیئے آپ اسلام آباد سے مظفرآباد سفر کریں گے وہاں سے نیلم ویلی کی اکلوتی شاہراہ پے سفر کرتے ہوئے تقریبا گیارہ گھنٹوں میں تاؤبٹ کے مقام پر پہنچیں سکیں گے۔ تاؤبٹ اس علاقے کو تفصیل سے دیکھنے کے لیئے بیس کیمپ کی حثیت رکھتا ہے۔ تاؤبٹ بالا سے آگے اس علاقے میں سڑک میسر نہیں صرف پیدل اور گھوڑے والا راستہ موجود ہے۔ جو ددگئی (چھوٹی گگئی) دیکھنا چاہتے ہیں وہ تاؤبٹ بالا سے مشرقی جنوب سمت میں نالے پر اپنے سفر کا آغاز کریں گے۔

ددگئی نالہ ایک خوبصورت چراگاہ ہے یہاں کی مشہور چھوٹی چراگاہوں میں زیان، رتا پانی اور مسیتاں والی بیکیں معروف ہیں۔ رتا پانی کی معروف ہونے کی یہ وجہ ہے ہے پانی تو شفاف ہے لیکن اس پانی کے نیچے مٹی کا رنگ بلکل سرخ ہے۔ یہ سارا علاقہ بہت خوبصورت ہے۔ اس کے سامنے زیان (مقبوضہ کشمیر) کا علاقہ واقع ہے جو کہ وہاں کی گریز ویلی میں شامل ہے۔ (یہاں چراگاہ کو مقامی زبان میں “بیکیں” کہا جاتا ہے)

بڑی گگئی کا سفر مشرقی سمت میں شروع کریں گے۔ 11 جولائی 2021 کو میں اپنے دوستوں کے ہمراہ یہاں کے سفر پر نکلا۔ ہم نے گاڑی تاؤبٹ بالا پارک کی اور اپنے کپڑے بیگ وغیرہ اٹھائے اور پیدل سفر شروع کیا۔ اس نالے میں سب سے پہلے تاؤبٹ برادری کی بیکیں اوراس سے آگے پارما برادری کی بیکیں آتی ہیں۔ یہاں راستے میں شکر گڑھ نالا جنوبی سمت میں الگ ہوتا ہے۔ شکرگڑھ نالہ کا آخری بلندی والا علاقہ ریاٹ اور گجر نالہ سے ملتا ہے۔ اس نالہ میں زیادہ تر بکروال اپنے مال مویشی کے ہمراہ گرمیوں میں جاتے ہیں۔ اسی راستے میں شکر گڑھ نالے کے آغاز میں بکروالوں کی قدیمی قبرستان موجود ہے۔ گرمیوں میں اگر بکروال برادری سے کوئی فوت ہو جائے تو ان کو اسی قبرستان میں دفنایا جاتا ہے۔ قبرستان میں دعاء مغفرت کرکے ہم نے شکرگڑھ نالہ کراس کیا اور سیدھا مشرق میں آگے سفر جاری رکھا۔ آگے راستے میں ملک برادری کے کچھ لوگوں نے چائے پینے کی دعوت دی۔ تھکاوٹ کی وجہ سے بخوشی ان کی دعوت قبول کرنی پڑی۔ ان کے کیمپ میں بہت لذیز قسم کی دیسی چائے کے ساتھ گھی سے بنی ہوئی “چوری” کھائی۔ ان سے علاقائی گپ شپ کے بعد ہم نے اجازت چاہی۔ یہاں سے آگے “چھوٹی کھوڑیاں” اور “بڑی کھوڑیاں” بیک واقع ہیں۔ راستے میں خوبصورت آبشاریں، میدان، برفانی تودے اورشور کرتے ہوئے ندی نالوں کا نظارہ کرتے رہے۔ اور چار گھنٹے کے سفرکے بعد ہم بلورکسی “نالہ” کے شروع والے علاقے میں پہنچے۔ بلورکسی نالہ میں بھی لوگ مال مویشی لیکر جاتے ہیں۔ اس علاقے میں قیمتی پتھروں اور جڑی بوٹیوں کی بہتات ہے۔


ہمارا ارادہ تھا کہ شام تک ہم اس علاقے کی سب سے خوبصورت چراگاہ (بیک) جل کھٹ پہنچیں اور اس علاقے کی صبح و شام کے خوبصورت مناظر سے آنکھیں ٹھنڈی کر سکیں۔ یہاں سے آگے ہم نے ایک دشوار گزار پہاڑی علاقے سے سفر کیا اور مذید آدھا گھنٹے میں جل کھٹ پہنچ گئے۔ یہاں کے عارضی مکین بہت مہمان نواز تھے اس لیئے ہم نے اپنے ساتھ ٹینٹ اور کسی قسم کے سامان ساتھ لے جانے کی زحمت نہیں کی۔ میں چونکہ مقامی علاقے سے تعلق رکھتا تھا اور یہاں میرا سماجی و سیاسی اثرورسوخ کی وجہ سے پورے علاقے میں اچھی جان پہنچان تھی۔ رات قیام جل کھٹ ہوا، یہاں دیسی کڑی، دہی، گھی اور مکئی کی روٹی سے خاطر تواضع کی گئی۔ مختصر لیکن ایسے دیسی کھانوں کی جو لذت ہے وہ شاید فائیو سٹار ہوٹلوں کے کھانوں کی نہ ہو۔

جل کھٹ میں مرناٹ، پھولاوئی اور دودھنیال سے گئے ہوئے سینکروں لوگوں کے ڈیرے موجود تھے۔ وہاں لوگ مال مویشی کے ساتھ خاصے مصروف ہوتے ہیں۔ لوگ مال مویشی کے ساتھ زرائع روزگار کے لیئے پہاڑی علاقے سے جڑی بوٹیاں نکالتے ہیں جو کہ مقامی طور پر مناسب داموں میں بیچی جاتی ہے۔ اس کی قانونی اور غیر قانونی نکاسی و ترسیل ایک الگ سے تفصیل طلب موضوع ہے۔ صبح فجر کے وقت بزرگ مرد و خواتین جاگتے ہیں اور نماز پڑھ کر ناشتہ اور پھر مال مویشی کو چرانے کا انتظام کرتے ہیں۔ شام کو مال مویشی واپسی پے جانوروں کے تھنوں سے دودھ نکالا جاتا ہے۔ یہاں لوگ کھانے پینے کے لیئے لسی، دودھ، چائے، کڑی، ساگ اور چاول وغیرہ کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اکثر غذا دیسی اور خالص ہوتی ہے۔

اس علاقے میں جڑی بوٹیوں کے ساتھ قیمتی پتھر بھی موجود ہیں۔ کچھ لوگوں یہاں لیز لے کر پتھر نکالتے ہیں جن میں زیادہ ٹورمالین، ابرق اور بلور کے پتھر شامل ہیں۔ جل کھٹ سے آگے لڑیاں اور سراٹ کے علاقے آتے ہیں یہاں سے آگے قمری ضلع دیامر کا علاقہ آتا ہے۔ اکثر گرمیوں میں قمری کے لوگوں کی آمدورفت اسی پیدل راستے سے ہوتی ہے وہ مقامی لوگوں سے ہلکا پھلکا کروبار بھی کرتے ہیں۔ قمری سے آگے منی مرگ اور پھر دیوسائی کے علاقے آتے ہیں۔ اسی لیئے یہ علاقہ حسین و جمیل ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اہم خطہ ہے۔

یہ علاقے بہت خوبصورت ہیں اور ان گنت قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، وہاں گورنمنٹ کی لاپرواہی کی وجہ سے مقامی لوگ مختلف مسائل میں پریشان حال ہیں جس میں تین مسائل سر فہرست ہیں، تعلیم، صحت اور روزگار۔ اتنے بڑے علاقے جہاں گرمیوں میں ہزاروں لوگ بستے ہیں وہاں تعلیم اور صحت نام کی کوئی سہولت میسر نہیں۔ حکومت کم از کم اس علاقے کے بیس کیمپ تاؤبٹ میں کم رورل ہیلتھ سنٹر (ہسپتال ) کا قیام عمل میں لائے تاکہ ان لوگوں کو بروقت طبی سہولیات میسر آ سکیں۔ روزگار کی فراہمی کے لیئے حکومت معدنی وسائل اور شعبہ سیاحت میں انقلابی ادامات کرے تو بہتری ممکن ہے۔

Exit mobile version