آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کے وزیر اعظم سے جب بھی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بات کی جائے تو اکثر وہ یہ کہتے ہیں کہ میرے ذمہ حکومتی اختیارات ہیں میں چیف ایگزیکٹو ہوں تحریک آزادی کشمیرکیلئے کام صدر آزادکشمیر نے کرنا ہے، جبکہ پارٹی معاملات سردار تنویر الیاس خان کے سپرد ہیں۔ وزیر اعظم صاحب اپنی حد تک تو ٹھیک کہتے ہیں، کیوں کہ وہ حکومتی معاملات میں ہی اتنی الجھے ہوئے ہیں ایسے میں باقی معاملات پر نظر رکھنے کی ان کے استعداد سے باہر ہے۔
جہاں تک معاملہ بیرسٹر سلطان محمود کا ہے وہ پرانے کھلاڑی ہیں وہ ایک وقت میں کئی محاذوں پر لڑنا جانتے ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر کے نام پر پروٹوکول اخباروں میں تشہیر، حکومتی معاملات اور پارٹی معاملات میں بھی اپنا پورا حصہ چاہتے ہیں۔ لیکن سلطان محمود چوہدری پہلی مرتبہ بے اختیار ہو چکے ہیں وزارت عظمی کے امید وار تھے۔ بار ہا انکار کے باوجود صدارت کیلئے ‘قبول ہے! قبول ہے! قبول ہے!’ کرنا پڑا۔
گزشتہ دنوں بیرون ملک دورے کے دوران تحریک آزادی چلا رہے تھے کہ پیچھے دو بڑوں کی صلح ہو گئی۔ یعنی وزیر اعظم اور سینئر وزیر کی۔ وزیر اعظم اور سینئر وزیر کے درمیان پاور شیئرنگ ہونے کے بعد سینئر وزیر کابینہ اجلاس میں شریک ہوئے۔ بعد ازاں صوابدیدی عہدوں پر ایڈ جسٹمنٹ سمیت دیگر حکومتی معاملات میں سلطان محمود سائڈ لائن ہوتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔ جس کی ایک مثال ان کے اپنے شہر میں ایم ڈی اے کے چیئرمین کی تعیناتی ہے، جس سے وہ خاصے نا خوش ہیں۔
جہاں تک معاملہ رہا سینئر وزیر سردار تنویر الیاس کا تو ان کی دلچسپی حکومت اور پارٹی دونوں معاملات میں ہے۔ البتہ تحریک کے نام پر سیر سپاٹے پروٹوکول کے معاملہ پر وہ بھی بیرسٹر سلطان کے معاملات میں مداخلت کے قائل نہیں۔ بیرسٹر سلطان نے پیپلز پارٹی کی وزارت عظمیٰ انجوائے کرنے کے باوجود بینظیر بھٹو کی طرف سے کشمیر کونسل کی رکنیت کیلئے نامزد امیدوار کے بجائے اپنے بندے کو رکن کشمیر کونسل بنا دیا تھا۔ جس کی وجہ سے ان کو پیپلز پارٹی سے جانا پڑا۔ ہر قسم کا اختیار پاس رکھنے کی ضد نے 20 سال تک موصوف کو اقتدار سے دور رکھا۔ اب جبکہ صدر کی جھنڈی ملی چکی ہے لیکن حکومتی اختیار پاس رکھنے کا خواب چکنا چور ہو چکا ہے۔
حالیہ بیرون ملک دورہ کے بعد جب سلطان محمود واپس آزادکشمیر پہنچے تو منظر مکمل بدل چکا تھا۔ اب تو ان کو اپنے بیٹے کے وزیر بننے کے آثار تک نظر نہیں آرہے۔ کیوں کہ آئین میں جتنے وزیر بنانے کی گنجائش تھی بن چکے۔ اب کسی سے استعفیٰ لیکر یاسر سلطان کو وزیر بنایاجائے یا انتظار کیا جائے کہ آئین میں ترمیم کرکے وزراء کی تعداد بڑھانے کی آئینی گنجائش نکالی جائے۔ لیکن حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں دو تہائی اکثریت کے بغیر آئین میں ترمیم ممکن نہیں۔ صوابدیدی عہدے بھی ان کے اختیار سے باہر ہو چکے ہیں۔ ایسے میں انہوں نے ایک مرتبہ پھر فیصلہ کیا ہے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے کا تاکہ وہ یہ بتاسکیں کہ وہ سیاسی طور پر اب بھی مظبوط ہیں۔
مظفرآباد کے اپر اڈہ کا جلسہ بھی پاور شو کرنے کے سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ تحریک آزادی کشمیر کے نام پر سیاسی جلسہ کرکے اپنے حمائتی وزراء اور اراکین اسمبلی کو بلاکر یہ باور کرایا گیا کہ اب بھی میرے پاس اتنے لوگ ہیں۔ اگر کہیں اپوزیشن کے ساتھ ملکر تحریک عدم اعتماد کی کوشش ہوئی تو نئی حکومت کی تشکیل کیلئے ہم اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بیرسٹر سلطان صدر آزادکشمیر بن کر بھی سیاسی کارکن ہی رہنا چاہتے ہیں۔ ان کو اپنے سربراہ ریاست کا منصب شاید قبول نہیں، ورنہ وہ ایسا سیاسی جلسہ نا کرتے جس میں آزادکشمیر کا ایک بھی جھنڈا نا تھا۔ اور اگر یہ تحریک آزادی کے نام پر جلسہ تھا تو پھر صرف پی ٹی آئی اندر سے ان کے گروپ کے لوگ ہی کیوں تھے؟ باقی سیاسی جماعتوں کے لوگوں کو کیوں نا بلایا گیا؟ اب عام آدمی کو اتنا بھی بیوقوف نا سمجھا جائے۔
موجودہ منظر نامے میں بیرسٹر سلطان حکومتی اختیارات کی گیم سے باہر نظر آرہے ہیں۔ اب دیکھنایہ ہے کہ آزاد کشمیر کی نیازی حکومت کب تک چلتی ہے اور اگر اس کو ہٹانے کیلئے لابنگ ہوتی ہے اس میں وزارت عظمیٰ کا تاج کس کے سر سجتا ہے۔ بیرسٹر سلطان تو وزیر اعظم بننے سے رہے، البتہ جب تک پاکستان میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اگر پی ٹی آئی سے کوئی نیاوزیر اعظم آیا تو وہ سردار تنویر الیاس ہو سکتے ہیں۔ دوسری صورت میں اپوزیشن جماعت وزارت عظمیٰ لے جائے گی۔ چھوٹے نیازی سردارعبدالقیوم کو بھی یہ معلوم ہے کہ ان پر ہونے والی مہربانی کی مدت بھی محدود ہے۔ جتنا ہو سکے اپنوں کے کام کرا لو، کیوں کہ کل پھر ان کے پاس ہی جانا ہے۔
اس وقت پی ٹی آئی کے آزادکشمیر میں تین مرد کھینچا تانی میں مصروف ہیں اور ان تین مردوں کہ یہ مختصرترین کہانی ہے۔
امیرالدین مغل مظفرآباد میں مقیم سنیئر صحافی ہیں۔ وہ ذرائع ابلاغ کے کئی قومی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ منسلک رہ چکے ہیں۔