کراچی کے سفاری پارک میں موجود ایک ہاتھی کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ جس کو 10 برس تک نر ہاتھی سمجھا جاتا تھا وہ مادہ نکلی۔ غیرملکی ڈاکٹرز کی ٹیم نے سفاری پارک کے ہاتھیوں کا جدید مشینوں سے الٹراساؤنڈ کیا تو یہ حقیقت سامنے آئی۔
جانوروں کی بہبود کی عالمی تنظیم فور پاؤز کے ماہرین نے اتوار کو کراچی کے چڑیا گھر اور سفاری پارک کے ہاتھیوں کا طبی معائنہ کیا۔ اس ٹیم میں ڈاکٹرعامرخلیل، ڈاکٹر فرینک گورٹز، پروفیسرہلڈی برینڈ اور ڈاکٹر مرینہ آئیوینووا شامل تھیں۔ اس ٹیم نے بلدیہ عظمی کراچی کے حکام کے ساتھ مل کر جانوروں کا معائنہ کیا۔
سندھ ہائی کورٹ نے 15 نومبر کو ہدایت کی تھی کہ جانوروں کی دیکھ بھال اور صحت سے متعلق جائزہ لینے کےلیے اقدامات کئے جائیں۔ اس سے قبل پاکستان اینیمل ویلفئیر سوسائٹی نے بلدیہ عظمی کراچی کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی تھی جس میں ہاتھیوں کی صحت سے متعلق شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
فورپاؤز کے ڈاکٹر خلیل نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ کے شکر گزار ہیں جنھوں نے ہماری صلاحیتوں پر اعتماد کیا۔ انھوں نے یقین دلایا کہ ہاتھیوں کی دیکھ بھال اور صحت سے متعلق انتظامیہ کی بھرپور معاونت کی جائے گی۔ ڈاکٹر خلیل کا کہنا تھا کہ تمام ہاتھیوں کے مکمل طبی معائنے سمیت ان کی رہائش سے متعلق انتظامات کو بھی دیکھا جائے گا۔ ہاتھیوں کو فوری طبی امداد دینے کےلیے بھی دوائیں اور آلات ساتھ لائے ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر اقدامات کئے جاسکیں۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ ان ہاتھیوں کی بھرپور دیکھ بھال کے لیے انتظامیہ کی مشاورت سے بہتر اقدامات کئے جائیں گے۔
ڈاکٹرخلیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ فور پاؤز تنظیم پرعزم ہے کہ چڑیا گھر کے دیگر جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے بھی اقدامات کئے جائیں تاہم اس کے لیے انتظامیہ کی اجازت درکار ہوگی۔
فور پاؤز کے ماہرین ان ہاتھیوں کا معائنہ کرکے اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کریں گے جس کے بعد عدالت مزید اقدامات کے لیے ہدایات جاری کرے گی۔
ہاتھیوں کا طبی معائنہ :۔
کراچی آمد کے بعد ماہرین کی ٹیم نے چڑیا گھرکے ہاتھیوں کا معائنہ کیا۔ انھوں نے ہاتھی نور جہاں اور مدھوبالا کے پنجرے دیکھے۔ انھوں نے ہاتھیوں کے مہابت یوسف سے بھی بات چیت کی۔ یوسف نے طبی ماہرین کو بتایا کہ ان ہاتھیوں کو دن میں دو بار خوراک دی جاتی ہے۔
یوسف کا کہنا تھا کہ سال 2009 میں چڑیا گھر لائے جانے کے وقت ان ہاتھیوں کی عمر دو سے ڈھائی برس کے درمیان تھی۔ ان ہاتھیوں کوعرفان احمد نامی کنٹریکٹر نے فروخت کیا تھا۔
اتوار کو ہاتھیوں کے ابتدائی طبی معائنے میں یہ بات سامنے آئی کہ ایک ہاتھی کو دانتوں کا انفیکشن ہے۔
ماہرین نے پھر سفاری پارک میں ہاتھیوں کا معائنہ کیا جہاں انھوں نے سونو اور ملکہ کو دیکھا۔ انھوں نے ہاتھیوں کو رکھنے کی صورتحال پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ انھوں نے ہاتھیوں کے خون کے نمونے، پاؤں کا جائزہ اور الٹراساؤنڈ کیا۔ انھوں نے تفصیلی معائنے کے لیے چند اہم اسکین اور کچھ ایکسرے بھی کئے۔ سفاری پارک میں ماہرین نے یہ بات نوٹ کی کہ ایک ہاتھی کی دم قصدا کاٹ دی گئی تھی۔ سفاری پارک انتظامیہ اس بات سے لاعلم نکلی۔
ڈاکٹر عامر خلیل نے قرار دیا کہ سفاری پارک کے ہاتھی بظاہر صحت مند اور تندرست ہیں۔ ہاتھیوں کے کھانے کی عادات اور ان کے اعضاء کا معائنہ بھی کیا گیا ہے۔
انھوں نے نشان دہی کی کہ اگرچہ ہاتھیوں کے رکھنے کی جگہ کشادہ ہے تاہم ان کی دی گئی خوراک ٹھیک نہیں ہے۔ ان کے مطابق ہاتھیوں کا معائنہ کرتے ہوئے کچھ باتوں کو مدِنظر رکھنا اہم ہوتا ہے جن میں ہاتھیوں کی صحت،اس کا رکھوالا اور ان کو رکھنے کی جگہ شامل ہے۔
بلدیہ عظمی کراچی کے افسر نے بتایا کہ غیرملکی ماہرین کی سفارشات کا خیرمقدم کیا ہے اور ان پر عمل کرنے کےلیے پرعزم ہیں۔
افریقا سے لائے گئے آخری 4 ہاتھی :۔
یہ ہاتھی 11 برس قبل تنزانیہ سے کراچی لائے گئے تھے۔ان کی عمریں بارہ سے چودہ برس کے درمیان تھیں۔
اس سال کے اوائل میں ہاتھیوں کی ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں ان کے کریک شدہ سینگ، ٹوٹے ہوئے ناخن اور سوجے ہوئے پاؤں نظر آرہے تھے۔اس کے بعد جانوروں کے حقوق کی ایک بین الاقوامی تنظیم پرو ایلی فینٹ نیٹ ورک نے فوری طبی معاونت کے لیے درخواست کی تھی۔ بلدیہ عظمی کراچی نے دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے ہاتھیوں کے پاؤں پر پیٹرولیم جیلی لگا کر ان کا علاج کیا۔
اس ویڈیو کے بعد بلدیہ عظمی کراچی کو جانوروں کے حقوق کےعلم بردارعدالت لے گئے اور ہاتھیوں کی دیکھ بھال کو انسانیت سوز اور لاپروائی قرار دیا گیا۔ بلدیہ عظمی کو ہاتھیوں کی دیکھ بھال کے معاملے میں قصور وار ٹہرایا گیا۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ ہاتھیوں کی صحت اور ان کو طبی امداد دینے سے متعلق بین الاقوامی ضابطوں کا خیال نہیں رکھا گیا۔
کاون کی کہانی:۔
اسلام آباد میں کاون ہاتھی کو 1980کی دہائی ميں سری لنکا سے لایا گیا تھا جبکہ سال 2012 ميں ساتھی ہتھنی کی ہلاکت کے بعد چڑچڑا ہوگيا تھا۔
سال2012 سے 2020 تک کاون مرغزار چڑیا گھر انتظامیہ کے ظلم وستم سہتا رہا۔ کبھی اس کو زنجیروں سے باندھا گیا اور کبھی اس کے غصے پر قابو پانے کے لیے اسے شراب تک پلائی گئی۔
جب یہ معاملہ میڈیا پر آیا تو دنیا بھر سے جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں بھی کاون کے حق میں آواز اٹھانے لگیں۔امریکی گلوکارہ شر نے کاون کو لےجانے کی پیشکش کی مگر یہ معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔
جانوروں کے ساتھ بدسلوکی کا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچا تو عدالت نے 5مئی 2020 کو کاون کو بیرون ملک منتقل کرنے کا حکم دے دیا، یوں جانوروں کی عالمی تنظیم فور پاز کے ماہرین کی ٹیم نے کاون کا معائنہ کیا اور صحت تسلی بخش قرار پانے پر روانگی کے انتظامات شروع ہوئے اور یوں کاون 29نومبر کو 2020کو خصوصی پرواز سے کمبوڈیا پہنچا دیا گیا۔