Site icon روزنامہ کشمیر لنک

باہر بیٹھے لوگوں کو پاکستان کی جغرافیہ اور ثقافت کا علم نہیں

لوگوں

اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ باہر بیٹھے لوگوں کو پاکستان کی جغرافیہ اور ثقافت کا علم نہیںاور وہ انتہا پسند کہہ دیتے ہیں۔ ملک میں تھنک ٹینکس کی ضرورت ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ باہر سے ایک پروپیگنڈا سوچ پاکستان پر غالب ہوا اور اسی نے غلط تاثر قائم کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں تھنک ٹینکس کی ضرورت ہے ہم نے اپنے تھنک ٹینکس ختم کیے اور باہر کی سوچ کو ملک میں لاگو کیا۔ مغرب میں تو برداشت ہی نہیں ہے جبکہ ہماری قوم میں سب سے زیادہ برداشت ہے۔

عمران خان نے کہا کہ مغرب ہمارے خلاف جو بھی کہتا تھا ہمارے پاس مضبوط دفاع کے لیے کوئی ذرائع نہیں ہوتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کولڈوار اور نہ ہی کسی بلاک کا حصہ بننا چاہتے ہیں جبکہ سعودی عرب اور ایران کے معاملے پر دنیا نے ہمارے کردار کو سراہا۔ امریکہ اور چین کے درمیان بھی دوری ختم ہونی چاہیے۔ بھارتی رویے پر بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت ہماری امن کی خواہش کو کمزوری سمجھ رہا تھا لیکن ہم نے پوری کوشش کی کہ بھارت سے بات ہو اور مودی سے ٹیلی فون پر بات بھی کی۔ بھارت میں 50 سے 60 کروڑ افراد کو دوسرے درجے کا شہری کہا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کے نظریے نے بھارت میں تقسیم پیدا کی ہے اور آر ایس ایس نظریے کے ہوتے ہوئے بھارت کو دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے مسئلہ کشمیر پر پوری دنیا میں بات کی۔ امید ہے بھارت میں ایسی حکومت آئے جس سے ہم مذاکرات کریں۔عمران خان نے کہا کہ لاہور میں آلودگی کی وجہ سے بہت سے مسائل کا سامنا ہے اور عالمی حدت کی وجہ سے قدرتی ماحولیاتی نظام متاثر ہوا جب بلین ٹری سونامی شروع کیا تو لوگوں کو علم ہوا کہ منصوبے کا مقصد کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کو عالمی حدت اور ماحولیاتی آلودگی جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ پاکستان اور بھارت کو عالمی حدت سے بچاو کے لیے کام کرنا ہو گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ افغانستان میں امن ہمارے مستقبل کے لیے بہت ضروری ہے اور ہمیں خدشہ تھا کہیں افغانستان میں سول وار نہ شروع ہو جائے۔ افغانستان کے مسئلے کو نظر انداز کیا گیا تو خطرناک بحران جنم لے سکتا ہے۔ افغانستان کے معاملے پر بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ عالمی برادری کے ممالک افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کریں اور انسانی بنیادوں پر افغانستان کی مدد کرنی چاہیے۔

Exit mobile version