اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی ڈرامے نے پچھلی دہائی کے دوران معیاری کہانیوں، مضبوط پلاٹ اور سماجی سمائل کو اجاگر کرتے ہوئے بہت زیادہ ترقی کی ہے۔ اگرچہ کرونا وائرس نے بہت سی صنعتوں کو متاثر کیا لیکن پاکستانی ٹی وی ڈراموں نے مختلف انواع کے ٹکڑوں کے ساتھ شائقین کو محظوظ کیا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں 2021 میں سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے ڈرامے کون کون سے ہیں۔
خدا اور محبت
ڈرامہ سیریل خدا اور محبت کا تیسرا سیزن شائقین میں بے حد مقبول ہوا۔ بلکہ یہ وہ واحد ڈرامہ سیریز ہے جو پڑوسی ملک بھارت میں بھی بڑی دلچسپی سے دیکھا گیا۔
یہ کہانی محبت اور روحانیت کے مضمون کے ساتھ ملتان اور بہاولپور کے مزاروں اور حویلیوں پر خاص توجہ مرکوز کرتی ہے۔ خدا اور محبت کے پہلے دو سیزن میں مسجد پر خاص توجہ مرکوز کی گئی تھی اور اس تیسرے سیزن پر مزارات پر۔
آگرچہ محبت اور روحانیت دو ایسے مضامین ہیں جو پوری دنیا کے سامعین کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں لیکن اس ڈرامہ کی بے مثال مقبولیت کے ساتھ ساتھ اس کو تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
ڈرامہ کی کہانی کافی سادہ ہے جو ایک غریب لڑکے کے گرد گھومتی ہے جس کو بہاولپور کے ایک پیر گھرانے سے دیوانہ وار محبت ہوجاتی ہے۔
دل نہ امید تو نہیں
دل نہ امید تو نہیں کا ٹائٹل فیض احمد فیض کی سب سے دلکش نظم سے لیا گیا ہے جو قید، درد اور غم کی عکاسی کرتی ہے۔
دل نہ امید تو نہیں سماجی مسائل پر مبنی ایک شاندار کہانی ہے۔ اس ڈرامے نے انسانی اسمگلنگ، چائلڈ لیبر، غریبوں کا استحصال، بدعنوانی، ہمدردی کی کمی، حتیٰ کہ جانوروں کے حقوق جیسے مسائل کو مؤثر طریقے سے اجاگر کیا۔
اس ڈرامے نے ہر اس بچے کو ایک چہرہ دیا جو اس کے حقوق سے محروم ہے۔ کیونکہ ڈرامے کے تمام ٹریک اس وقت سے شروع ہوئے جب ان بچوں کو ان کے پیدائشی حقوق نہیں دیئے گئے تھے۔
دل نا امید تو نہیں میں تمام کرداروں کا ایک الگ سفر تھا۔ منفرد شخصیات اور معاشرے کے ایک ایسے طبقے کی نمائندگی کرتے تھے۔ جس نے کسی نہ کسی طرح سے مسائل میں اضافہ کیا یا پھر اس سے چھٹکارا پانے کی کوشش کی۔ اس ڈرامے کو کسی ایک معروف چینل پر نشر نہیں کیا گیا یقینی طور پر ناظرین کی تعداد کو یقینی بنانے کے لیے درکار کنارہ چھین لیا لیکن اس کے باوجود اسے بہت سے لوگوں نے دیکھا اور اس ڈرامے نے تعریف حاصل کی۔
دل نا امید تو نہیں میں انڈسٹری کے چند غیر معمولی اداکاروں نے کام کیا جس نے یقینی طور پر ڈرامے کی مجموعی اپیل اور احساس میں اضافہ کیا۔
ڈنگ
جہاں #می-ٹو ایک عملی رجحان بن چکا ہے۔ ہراسمنٹ کے الزامات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کچھ صحیح ہوتے ہیں اور کچھ غلط اور اس صحیح اور غلط کو تلاش کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔
ڈنگ ایک ایسی ہی ڈرامہ سیریل ہے، جو اے آر وائی ڈیجیٹل پر نشر ہوئی۔ اس سیریل کی کہانی جھوٹے الزام پر مبنی ہے۔
ڈنگ ڈرامہ نے سرگودھا میں پیش آنے والے ایک حقیقی واقعے کی تصویر کشی کی ہے۔ یہ کہانی ایم اے او کالج سرگودھا کی ہے جہاں ایک پروفیسر نے طلبہ کی جانب سے ہراساں کیے جانے کے جھوٹے الزام کی وجہ سے خودکشی کر لی۔
یہ ڈرامہ حقیقت بمقابلہ جھوٹ کی عکاسی کرتا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ جو کچھ آپ دیکھتے یا سنتے ہیں وہ سچ نہیں ہے۔
یہ ڈرامہ معاشرے ایک مختلف پہلو کو دکھاتا ہے جہاں لوگوں کی شخصیت ان کی ظاہری شکل سے مختلف ہوتی ہے اور دوسروں کے لیے سنگین پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔
ڈنگ اب تک ایک بہت ہی تھرلر ڈرامہ سیریل ہے۔ یہ کہانی اس نکتے کو اجاگر کرتی ہے کہ کسی بھی تحقیقات کا مقصد کسی نکتے کو ثابت کرنا نہیں بلکہ سچ تک پہنچانا ہوتا ہے۔ اس کی ضمانت اس شخص کے جنس سے نہیں دی جا سکتی بلکہ کیس کے حقائق سے ہوتی ہے۔
رقیب سے
پاکستانی ڈرامے ایک عرصے سے شائقین کی توجہ کا مرکز ہے۔ خواہ وہ مثبت ہو یا منفی جہاں کچھ موضوعات اور کہانیوں کو معاشرتی پہلوؤں کے مطابق بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے وہی کچھ منفرد کہانیاں بھی سامنے آتی ہے۔
رقیب سے ڈرامہ سیریل بھی ان میں سے ایک ہے۔ اس ڈرامے کا عنوان فیض احمد فیض کی ایک معروف نظم سے لیا گیا ہے۔
یہ ڈرامہ سیریل سال ٢٠٢١ کا ایک ناقابل تردید ڈرامہ ہے۔ ڈرامہ کمال اداکاری اور مکالموں کے ذریعے ناظرین کی توجہ کا مرکز بنا۔
ڈرامہ سیریل رقیب سے بنیادی طور پر جذبات کی ایک بالکل نئی دنیا کو متعارف کرواتا ہے۔ جہاں محبت کو عام کہانیوں سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے۔ خاندان کے افراد اور بن بلائے مہمانوں کے درمیان تعلق آخر تک ناظرین کی دلچسپی کا باعث رہا۔
درحقیقت یہ چار عورتوں کی کہانی ہے ان کی زندگی کے سفر کی کہانی ہے اور یہ سب سے اہم احساس کی کہ عورت کی عزت نفس زندگی میں سب سے اہم ہے۔
محبت، نقصان اور مفاہمت کی ایک ایسی کہانی ہے جو دیکھنے والوں کے لیے تازہ اور بہت مانوس ہے۔
ہم کہاں کے سچے تھے
ہم کہاں کے سچے تھے اردو ناول پر مبنی ایک ڈرامہ سیریل ہے۔
اس ناول میں مصنفہ نے بچوں کی شخصیت پر والدین کے رویوں کے اثرات کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔
یہ کہانی پاکستانی خاندانی نظام کے کے متعلق ہے۔ کہانی کو منفی انداز میں پیش نہیں کیا گیا جیسا کہ عام طور پر ڈراموں میں دیکھا جاتا ہے۔
ڈرامہ نے اس بات کی بنیاد رکھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں والدین کی خامیاں اولاد کو کس طرح پریشان کرتی ہیں۔
اگر ایک معصوم بچی (مہرین) ایک بار اپنی کزن (مشعل) کو اس اس لیے مارا کہ وہ اس کے والد کو چور اور منشیات کا عادی کہ رہی تھی، تو اسے زندگی کے لیے مصیبت میں ڈالنے والا قرار دیا جاتا ہے۔
اسے ہمیشہ اپنے والد کی غلط کاریوں کے سائے میں پرکھا جاتا ہے اور اگر وہ جوابی کارروائی کرتی ہے اور اپنے اعمال کا دفاع کرتی ہے تو اسے جھوٹا کہا جاتا ہے۔
جیسا کہ شروع میں بیان ہوشیاری سے نشاندہی کرتا ہے کہ بعض اوقات غیر مناسب موازنہ اور زہر آلود خیالات ایک فرشتہ بچے کو ایک چھوٹے دماغ والے بچے میں بدل دیتے ہیں
مریم قربان اسلام آباد میں نمل یونیورسٹی کی طلبہ ہیں۔ وہ رپورٹنگ میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ ان دنوں وہ کشمیر لنک کے ساتھ انٹرن رپورٹر کے طور پر منسلک ہیں۔