Site icon روزنامہ کشمیر لنک

وزیر اعظم صاحب یہ رویہ رہا تو ووٹ نہیں دوں گا: پرویز خٹک اور وزیر اعظم کے درمیان تلخی

وزیر اعظم

وزیر اعظم عمران خان کی زیرصدارت پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی ہے جس میں وزیر دفاع پرویز خٹک اور وزیراعظم کےدرمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا ہے۔

قومی اسمبلی میں منی بجٹ ان دنوں زیر بحث ہے اور ضمنی مالیاتی بل کی منظوی سے قبل ارکان قومی اسمبلی کو اعتماد میں لینے کیلئے پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کیا گیا تھا تاہم اجلاس میں معاملہ مزید بگڑ گیا، پرویز خٹک، نور عالم و دیگر ارکان نے منی بجٹ، مہنگائی، اسٹیٹ بینک کی خودمختاری سے متعلق شدید تحفظات کا اظہار کیا۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں وزیر دفاع اور سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے کہا کہ آپ کو وزیراعظم ہم نے بنوایا ہے۔ خیبرپختونخوا میں گیس پر پابندی ہے، گیس بجلی ہم پیدا کرتے ہیں اور پِس بھی ہم رہے ہیں، اگر آپ کا یہی رویہ رہا تو ہم ووٹ نہیں دے سکیں گے۔

ذرائع کے مطابق پرویز خٹک کی اس گفتگو پر وزیراعظم اٹھ کر جانے لگے اور کہا کہ اگر آپ مجھ سے مطمئن نہیں تو کسی اور کو حکومت دے دیتا ہوں۔ میں ملک کی جنگ لڑ رہا ہوں کوئی ذاتی مفاد نہیں، میرے کارخارنے نہیں،میری کوششیں ملکی مفاد کی خاطر ہیں۔

ذرائع کے مطابق اس موقع پر وزیر توانائی حماد اظہر نے بیچ میں بولنے کی کوشش کی تو پرویز خٹک نے انہیں ٹوک دیا اور کہا کہ میں وزیر اعظم سے بات کررہا ہوں۔ ذرائع کے مطابق پرویز خٹک کی بات سن پر وزیراعظم نے ناراضی کا اظہار کیا اور اجلاس سے اٹھ کر جانے لگے تاہم سینیئر ارکان قومی اسمبلی نے انہیں روک لیا البتہ پرویز خٹک اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔

پرویز خٹک نے حماد اظہر اور وزیر خزانہ شوکت ترین پر بھی سخت تنقید کی۔ ذرائع کے مطابق اس دوران اجلاس کا ماحول کافی کشیدہ رہا اور اجلاس کے مقاصد بھی حاصل نہ ہو سکے کیوں کہ وزیراعظم باضابطہ طور پر ارکان قومی اسمبلی سے منی بجٹ کے معاملے پر بات نہ کرسکے۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں مِنی بجٹ کی منظوری کیلئے حکومت متحرک ہوگئی ہے اور آج وزیراعظم عمران خان خود پارلیمنٹ ہاؤس آئے تھے اور قومی اسمبلی اجلاس سے پہلے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے جس دوران تلخ کلامی ہوئی۔ وزیراعظم نے حکومت اور اتحادی جماعتوں کے تمام اراکین قومی اسمبلی کو گزشتہ روز ہدایت کی تھی کہ وہ رات کو ہی اسلام آباد پہنچ جائیں۔

وزرائے اعلیٰ کے عشائیے

اس کے علاوہ پنجاب اور کے پی کے وزرائے اعلٰی نے بھی گزشتہ شب ارکانِ قومی اسمبلی کو الگ الگ عشائیہ دیا تاہم ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب کے عشائیے میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے 30 سے زائد اراکین قومی اسمبلی شریک نہیں ہوئے۔ عشائیے کے موقع پرپارٹی اراکین قومی اسمبلی کی حاضری لگائی گئی، عشائیے میں نہ آنے والے پارٹی ارکان اسمبلی کی فہرست تیار کی گئی، عشائیے میں نہ آنے والوں کی فہرست وزیراعظم کو بھجوا دی گئی۔

علاوہ ازیں وزیر اعلیٰ کے پی محمود خان کی جانب سے بھی گزشتہ شب ارکان قومی اسمبلی کو علیحدہ عشائیہ دیا گیا اور ذرائع کا کہنا ہے کہ اس عشائیے میں بھی پانچ سے چھ ارکان قومی اسمبلی شریک نہیں ہوئے جن میں پرویز خٹک بھی شامل تھے۔

اتحادی جماعت ایم کیو ایم گو مگو کا شکار

وفاق میں حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم مِنی بجٹ پر حکومت کی حمایت کرنے یا نہ کرنے کا اب تک فیصلہ نہیں کرسکی ہے۔ایم کیو ایم پاکستان نے منی بجٹ پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور 11 نکاتی تجاویز قومی اسمبلی میں جمع کرادی ہیں اور وزیر خزانہ کو بھی تجاویز بھجوا دیں ہیں۔
منی بجٹ میں کیا ہے؟

حکومت نے 30 دسمبر 2021 کو ضمنی مالیاتی بل 2021 (منی بجٹ) اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان 2021ء بل قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا اور اس دوران اپوزیشن جماعتوں نے شدید احتجاج کیا۔
اطلاعات کے مطابق مِنی بجٹ میں تقریباً 150 اشیاء پر سیلز ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے جن سے 343 ارب روپے سے زیادہ اضافی ریونیو حاصل ہوسکے گا۔

گاڑیاں، دوائیں، ڈبل روٹی، ریسٹورنٹ کا کھانا منہگا ہوگا، بیکری آئٹمز، موبائل فون، بچوں کے دودھ، ڈبے والی دہی، پنیر، مکھن، کریم، دیسی گھی، مٹھائی اور مسالا جات کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی۔
اس کے علاوہ درآمدی نیوز پرنٹ، اخبارات، جرائد، کاسمیٹکس، کتابیں، سلائی مشین، امپورٹڈ زندہ جانور اور مرغی پر مزید ٹیکس لگے گا۔

کپاس کے بیج، پولٹری سے متعلق مشینری، اسٹیشنری، سونا، چاندی، کمپیوٹرز اور لیپ ٹاپ بھی اس منی بجٹ کے بعد مہنگے ہوجائیں گے۔ مِنی بجٹ میں تقریباً 150 اشیا پر سیلز ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے، موبائل فونز پر ٹیکس 10 سے بڑھا کر 15 فیصد کرکے 7 ارب روپے اضافی حاصل کیے جائیں گے۔

الیکٹرک کاروں پر ٹیکس 5 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کیا جائے گا۔تندور پر تیار ہونے والے نان، روٹی اور شیر مال، مقامی طور پر فروخت ہونے والے چاول ، گندم اور آٹے پر بھی کوئی ٹیکس نہیں ہوگا۔ موبائل فون کمپنیوں کی سروسز پر ایڈوانس ٹیکس 10 فیصد سے 15 فیصدکرنےکی تجویز ہے۔ ڈیوٹی فری شاپس پر پہلی بار 17 فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔

پولٹری کے شعبے سے متعلقہ مشینری پر ٹیکس 7 فیصد سے بڑھاکر 17 فیصد کرنے جبکہ چاندی اور سونے پر ٹیکس کی شرح 1 سے بڑھاکر 17 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ اس کے علاوہ بیکری، ریسٹورنٹس، فوڈ چینز پر بریڈ کی تیاری پر 17فیصد جی ایس ٹی کی تجویز ہے جب کہ عام تندوروں پر روٹی اور چپاتی پر ٹیکس استثنیٰ برقرار رہے گا۔

بشکریہ جیو نیوز

Exit mobile version