Site icon روزنامہ کشمیر لنک

لاہوربم دھماکہ: ابصار کی لاش والی ایمبولینس والد چلا کر لایا

لاہوربم دھماکہ

لاہوربم دھماکہ میں مارے جانے والے نو سالہ بچے ابصار کی تدفین مظفرآباد کے علاقے پٹہکہ کے قریب اس کے آبائی گاوں تلگراں میں کر دی گئی ہے۔

پنجاب کے شہر لاہور میں جمعرات کو بم دھماکے میں مارے جانے والے 9 برس کے ابصار کا تعلق آزادکشمیر کے ضلع مظفر آباد کی وادی کوٹلہ کے گاوں تلگراں سے تھا۔ ابصار کے ماموں نے بچپن میں ہی اسے گود لیا تھا۔
لاہور کے علاقے انارکلی میں ہونے والے اس دھماکے میں 3 افراد مارے گئےتھے۔

ابصار کے والد آفتاب اعوان نے بتایا کہ ابصار بدھ کی رات کو کراچی سے آئے ہوئے اپنے ماموں، ممانیوں، ایک خالہ اور ان کی بیٹی کے ہمراہ مظفرآباد سے لاہور پہنچا تھا۔ان کے مطابق لاہور میں ابصار سمیت کچھ رشتے داروں کا مینارِ پاکستان سمیت دیگر مقامات پر سیر و تفریح کا پروگرام تھا۔

آفتاب احمد کے مطابق انہیں لاہو سے مظفرآباد تک لاش پہنچانے میں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا رہا۔
کشمیر لنک ڈیجیٹل سے بات کرتے ہوئے آفتاب اعوان نے کہا کہ جب ابصار کی موت کی خبر ملی تو اس کی لاش لینے لاہور روانہ ہوے مگر پھر ہمیں راولپنڈی روک دیا گیا کہ لاش آپ کو یہیں ملے گی۔
‘کسی نے کوئی جواب دیا کہ کیا کرنا ہے، کیسے کرنا ہے، لاش کو چھ سے سات گھنٹے انہوں نے اندر رکھا خامخواہ۔’

‘اس کے بعد جب ہم نے دباو ڈال کر لاش حاصل کی۔ پھر ایمبولینس والوں نے ڈرامہ شروع کر دیا۔ ایک کہنے لگا میں دل کا مریض ہوں۔ دوسرا کہنے لگا مجھے کنٹرول روم اجازت نہیں دے رہا۔’

آفتاب اعوان کے بقول دو گھنٹے تک ایمبولینس کے ڈرائیوں کے ساتھ بحث کے بعد ہم خود ایمبولینس چلا کر یہاں تک لائے۔ پھر ہم یہاں بڑی مشکل سے پہنچے۔ ایک لاش رکھنے کے باوجود اس لوگوں میں کوئی احساس نہیں ایک بچے کی لاش پڑی ہے۔

انہوں نے ہمارے ساتھ بہت غلط کیا۔ انسانیت بلکل مر چکی ہے لوگوں کے اندر۔ جو ہمارا بچہ ہے اس کا خون کس کے ہاتھ میں تلاش کریں ؟ بم دھماکے کے وقت ابصار کے ساتھ موجود ایک ماموں فیضان کے مطابق کہ ان کے بھائی سلیمان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔

انھوں نے اپنے بہنوئی آفتاب سے ابصار کو بچپن میں اسی وقت گود لے لیا جب اس کے والدین کراچی میں ہی رہتے تھے۔چنانچہ ابصار زیادہ وقت اپنے ننھیال میں رہا جبکہ کچھ وقت وہ اپنے والدین کے ساتھ کراچی میں رہا مگر تین سال قبل ابصار والدین کے ہمراہ کراچی سے کشمیر آ گیا۔

فیضان کے مطابق ’میں اور دیگر فیملی کے افراد انار کلی بازار میں اندر والی طرف خریداری کر رہے تھے جبکہ ابصار، میرے بھائی سلیمان اور ان کی اہلیہ بازار کی باہر والی جانب ابصار کے لیے جوتے خرید رہے تھے کہ اچانک دھماکہ ہوا جس میں یہ تینوں زخمی ہو گئے۔ بھابھی زیادہ زخمی نہ تھیں، اس لیے بھائی نے اپنے زخموں کی پرواہ کیے بغیر بھابھی و دیگر لوگوں مدد سے ابصار کو ہسپتال پہنچایا جہاں وہ آدھا گھنٹہ زندہ رہا اور پھر چل بسا۔‘
ابصار کی لاش کی لاہور سے مظفرآباد منتقلی کی کہانی سناتے ہوئے فیضان نے بتایا کہ، ‘پنجاب گورنمنٹ نے بولا کہ بچے کی لاز ہم اپ کو گھر تک پہنچا کے دیں گے۔ ہماری ایمبولینس ہو گی۔ مگر بعد میں جو ڈرائیور لاہور سے اولپنڈی آیا اس سے پنڈی سے دوسری ایمبولینس دینا تھی جو نہیں دی۔ پھر دوسرا ڈرائیور دیا ایدھی والوں سے لیکر۔ ایدھی والوں کا ڈائیور راولپنڈی سے مری آیا۔ پھر دونوں آپس میں لڑنے لگے۔

فیضان کے مطابق پنڈی والا ڈارئیور کہنے لگا مجھے چکر آرہے ہیں۔ میں گاڑی نہیں چلا سکتا اور میں جب تک نہیں جاوں گا۔ جب تک مجھے اوپر سے اجازت نہیں ملے گی۔ پھر ہم نے بولا ہم آپ کی ایمبولینس لے کر جارہے ہیں۔ آپ مظفر آباد سے اپنی ایمبولینس لے لینا۔ پھر ہم خود گاڑی چلا کہ مظفر آباد لے کر آئے۔

Exit mobile version