آزاد کشمیر میں کم عمری میں جبری شادیاں اب بھی جاری ہیں۔ حکومت قوانین پر عمل درآمد کروانے میں ناکام ہے۔ ‘والد نے زبردستی نکاح کروانے کی کوشش کی۔ انکار کیا تو گلہ دبا کر مارنے کی کوشش کی۔ تشدد کا نشانہ بنایا اور زبردستی داستخط کروائے’، شیلٹر ہوم میں موجود متاثرہ لڑکی کی گفتگو۔
زبردستی نکاح کروانے کی بعد سسرال نہ جانے پر بڑے بھائی والد اور چچا نے اتنا تشدد کیا کہ میر ا بازوں ٹوٹ گیا۔ پھریہ بات کسی کو نہ بتانے کے لیے ذہنی دباو ڈالا گیا۔ چھوٹے بھائی نے بچایا ورنہ آج شاہد میں یوں اپنے حق کے لیے نہ لڑ رہی ہوتی۔ ایسا کہنا ہے حکومت آزاد کشمیر کے محکمہ وویمن ڈویلپمنٹ میں رہنے والی متاثرہ لڑکی کا حنا کا۔
حنا کے بقول والدہ کی وفات کے بعد نانی نے پرورش کی۔ میٹرک کرنے کے بعد شہر میں پڑھنے کے لیے بھیجا جہاں میں تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ ایک دن میرے والد آئے اور مجھے کہا کہ کزن کی مگنی ہے اور ساتھ لے گے۔ وہاں جا کر مجھے کہا کہ تماری مگنی کررہے ہیں۔ میں نے انکار کیا تو مجھے تشدد کا نشانہ بنایا اور راتو و رات زبردستی میرا نکاح کروا دیا۔
میں نے والد اور چچا سے بہت بار کہا کہ میرے ساتھ یہ ظلم نہ کریں۔ مگر کسی نے میری ایک نہیں سنی۔ جس پر چھوٹے بھائی نے رات کی تاریکی میں مجھے وہاں سے نکال کر یہاں شیلٹر ہوم چھوڑ دیا۔ میں نے دس ماہ سے اس شیلٹر ہوم میں پناہ لے رکھی ہے۔ مگر یہ کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں۔ جبکہ میرے دو سال ضائع ہو چکے ہیں۔ میرا تعلیمی مستقبل تباہ ہو کر رہ گیا۔
میرا نکاح ایک ایسے شخص کے ساتھ کروایا گیا ہے جو چرس کا ناشہ کرتا ہے۔ ایسے انسان کے ساتھ زندگی کا تصور بھی ممکن نہیں۔
ایک حنا ہی نہیں بلکہ اس معاشرے کی ہزاروں ایسی لڑکیاں ہیں جن کی زبردستی شادی کرکے ان کو ان حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ نکاح کے وقت حنا کی عمر 17سال تھی۔ یہ وہ عمر ہوتی ہے جس میں انسان اپنا مستقبل بنانے کی طرف گامزن ہوتا ہے۔ مگر حنا معاشرتی رسم رواج کی بھینٹ چڑھ گئی۔
حنا سے جب اس کے بارے میں پو چھا گیا تو اس نے ایک لمبی سانس بھری اور اس کی آنکھوں سے آنسوں بہنا شروع ہو گئے۔ دکھ سے حنا کا گلہ بند ہو گیا۔ وہ سسکیاں لیتے ہوئے بولنے کی کوشش کرتی اور پھر خاموش ہو جاتی۔
حنا کا کہنا ہے کہ اسے کوئی پتہ نہیں کہ اس کہ ساتھ کیا ہو گا۔ کیوں کہ وہ ابھی تو شلٹر ہوم میں موجود ہے، مگر وہ اس کا عارضی ٹھکانہ ہے۔
حنا کہتی ہے کہ والد چچا اور زبردستی کا شوہر تاک میں ہیں کہ کہ کب ان کو موقع ملے اوروہ مجھ سے میری سانسیں چھن لیں۔ اس کی سوال کرتی نگاہیں اس معاشرے کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ایس ایس پی آفس مظفرآباد کے دفتر سے ملنے والی معلومات کے مطابق ضلع مظفرآباد کی حدود میں بچوں کے ساتھ ذیادتی کے چھ کیس رپورٹ ہوئے
خواتین کو حراساں کرنے اور تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے 13 کیس رپورٹ ہوئے۔ جبکہ وویمن ڈویلمنٹ ڈپارٹمنٹ کے پاس خواتین کو گریلو تشدد کا نشانہ بنائے جانے اور فورس میرج کے 80 کیس رپورٹ ہوئے، جو کہ مایوس کن صورتحال ہے۔
ماہر قانون کوثر اعوان نے کہا کہ بد قسمتی سے آزاد کشمیر کے مضافات میں زبردستی کی شادی کا رواج عروج پر ہے۔ اسلام نے آزدانہ نکاح کا حکم دیا ہے مگر اس کو خاطر میں ہی نہیں لایا جاتا۔ میری پریکٹیس کے دوران اسطرح کے بہت کیس سامنے آئے ہیں کہ جو کوئی لڑکی اپنی مرضی سے نکاح کرتی ہیں تو جسے ہی اس کے گھر والوں کو اس کے بارے میں پتہ چلتا ہے تو گھر والے دیگر رشتہ داروں کے ساتھ مل کر ماہ دو ماہ یا سال پہلے کا جھوٹا نکاح نامہ تیار کر لیتے ہیں۔ جب کیس عدالت میں آتا ہے تو لڑکی کے دو دو نکاح سامنے آتے ہیں۔ ہزاروں کے حساب سے اسطرح کے کیس مظفرآباد کے اندار موجود ہیں۔ جن کی نشاندہی ہونے کے باوجود عورتیں کچھ نہیں کر سکتی۔ ان کے اوپر گھر خاندان معاشرے اور برداری کا دباو ہوتا ہے۔ کوثر کہتی ہیں کہ ایک وکیل ہو کر بھی ان کی مدد نہیں کر سکتی۔ گن پوائنٹ پہ زبردستی شادی کروائی جاتی ہے۔ اور نکاح کے اپر نکاح کروا دیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے جب راحت فاروق ایڈووکیٹ سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ قوانین تو موجود ہیں مگر ان پر آج تک عمل درآمد نہیں ہو سکا جسے 2014 میں گھریلو تشدد کا قانون بنا
harresment at workplace
کا قانون بنایا گیا مگر اس پہ عمل درامد نہیں ہو سکا ضروری ہے کہ اس حوالے سے proper mechanism بنایا جائے اور اس حوالے سے awareness
دی جائے۔
راحت کا کہنا کہ خواتین کو وراثت میں سے حق نہیں دیا جاتا خواتین کے حوالے سے ہمارے رویوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
فائزہ گیلانی کا تعلق مظفرآباد آزاد کشمیر سے ہے۔ وہ گذشتہ کئی سالوں سے صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں اور قومی نشریاتی و اشاعتی اداروں سے منسلک رہی ہیں۔ فری لانس صحافی کے طور پر ان کی تحقیقاتی رپورٹس قومی میگزینز میں شائع ہوتی ہیں۔