Site icon روزنامہ کشمیر لنک

کشمیر پر یکجہتی کافی نہیں

پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر بھرپور طریقے سے منایا گیا۔صدر پاکستان جناب عارف علوی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ مظفرآباد تشریف لے گئے۔ مختلف تقریبات میں شریک ہوکر انہوں نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو خراج تحسین پیش کیا۔ مظفرآباد میں کشمیر کے حوالے سے ایک یادگار کا بھی افتتاع کیا گیاہے۔یادگار کے درویوار پر کمال فنی مہارت سے کشمیرکی جدوجہد آزادی کے مختلف مراحل کی خوبصورتی سے منظر کشی کی گئی ہے۔ برسوں کی محنت کے بعد کھڑی ہونے والی اس یادگار نے دارالحکومت مظفرآباد کے حسن میں چار چاند لگا دیئے ہیں۔

چند دن قبل نیوز ویب سائٹ کشمیر والا کے ایڈیٹر فہد شاہ کو گرفتار کرلیا گیا۔ الزام ہے کہ وہ ’’ اینٹی نیشنل‘‘ مواد اپنی ویب سائٹ پر ڈالتے ہیں۔ سری نگر کے پریس کلب پر تالے لگ چکے ہیں۔ میڈیا ہاؤسز کا یہ عالم ہے کہ آزادی نواز جماعتوں اور شخصیات کی خبر تک شائع نہیں کرتے، جیسے کہ ان کا وجود ہی نہیں۔انسانی حقوق کے علمبرداروں کو پہلے ہی حکومت پابندسلاسل کرچکی ہے۔ خرم پرویز جیسے بڑے قد کاٹھ کی شخصیت تک کو نہیں بخشا گیا تو باقی لوگ کس کھیت کی مولی ہیں۔

المختصر بھارتی حکومت مسئلہ کشمیر کے پر امن حل کا ہر دروازہ بند کرچکی ہے۔ وہ اس مسئلہ کا فوجی حل نکالنے پر کمر بستہ ہے۔ مسلسل دعویٰ کیا جاتاہے کہ پانچ اگست 2019 کے اقدامات نے عسکریت پسندی کو ختم کردیا اور کشمیر میں امن بحال ہوچکا ہے۔بھارتی نیوز ایجنسی اے این آئی کے مطابق مرکزی وزیر داخلہ نتیانند رائے نے راجیہ سبھا میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد 439 جنگجو اور 98 بے گناہ شہری مارے گئے ہیں۔اس دوران 109 بھارتی فوجی اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔اسی نیوز ایجنسی کی ایک اور خبر کے مطابق محض دسمبر اور جنوری میں اکتالیس حریت پسندوں کو جاں بحق کیا گیا۔

ان سرکاری اعداد وشمار سے بھی اندازہ کیا جاسکتاہے کہ لگ بھگ ہر روز کسی نہ کسی شخص کا لہو پولیس یا فوج کے ہاتھوں بہتا ہے۔ امن کی بحالی کے جھوٹے سچے دعوؤں کے ذریعے بھارتی حکومت اپنی رائے عامہ کی آنکھوں میں دھول جھونکتی ہے۔ پرتشدد اور جارحانہ پالیسیوں کا بھارتی حکومت کو سیاسی فائدہ الیکشن میں ملتاہے۔ انتہاپسندگروہوں میں نظریاتی پذیرائی بھی ملتی ہے لہٰذا امکان نہیں کہ بی جے پی حکومت اپنی ناکام اور پرتشدد پالیسیوں پر نظرثانی کرے ۔اگرچہ پاکستان کی ممتاز کاروباری شخصیت میاں منشا نے ایک حالیہ انٹرویو میں امکان ظاہر کیا ہے کہ خفیہ رابطوںکے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان کوئی بریک تھرو ہوسکتاہے۔ بلکہ میاں منشاء کہتے ہیں: وزیراعظم نریندرمودی پاکستان بھی آسکتے ہیں لیکن بھارتی حکومت کے جارحانہ طرزعمل کو دیکھتے ہوئے ایسے کسی معجزہ کی امید عبث ہے۔

یہ تو واضح ہوچکا ہے کہ بھارتی طرزعمل اورجارحانہ روئیے کے خلاف مقبوضہ کشمیر کے اندررہنے والے اب موثر آوازنہیں اٹھا سکیں گے کیونکہ ان کے پاس کوئی پلیٹ فارم ہی موجود نہیں جو استعمال کیا جاسکے۔اس صورت حال نے کشمیریوں کو زبردست اضطراب کا شکار کیا ہے۔چنانچہ اس پسِ منظر میں صورت حال پر غور کے لیے گزشتہ ہفتے صدر آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چودھری نے ایک کل جماعتی کانفرنس کی میزبانی کی،جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں،سابق صدور اور وزرائے اعظم نے شرکت کی۔

نہایت ہی سازگار اور دوستانہ ماحول میں ہونے والی اس کانفرنس میں طے پایا کہ سیاسی اختلافات اور جماعتی مفادات کے باوجود تمام جماعتیں مشترکہ طور پر مسئلہ کشمیر کو دنیا میں اجاگر کرنے کے لیے سرگرم کردار اداکریں گی۔بیرون ملک آباد کشمیریوں اور پاکستانیوں کو بھی سرگرم کیا جائے گا۔ دنیا کے اہم دارالحکومتوں بالخصوص لندن، برسلز اور نیویارک میں نہ صرف بڑے احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے بلکہ ان ممالک میں کشمیر کانفرنسوں کا بھی انعقاد کیا جائے گا۔اسلام آباد اور مظفرآباد میں بھی بین الاقوامی کشمیر کانفرنسوں کے انعقاد کا اعلان کیا گیا۔

صدربیرسٹر سلطان محمود زمانہ طالب علمی ہی سے مسئلہ کشمیر پر عالمی سطح پر سرگرم کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ لندن، یورپ، نیویارک میں عوامی مہم چلانے اور یورپین پارلیمنٹرین کو متحرک کرنے میں ان کا طویل تجربہ اور گہری دلچسی ہے۔ اس لیے امید ہے کہ وہ دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کی مدد سے تحریک آزادی میں نئی روح پھونکنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

کل جماعتی کانفرنس میں وزیراعظم عبدالقیوم نیاز ی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ حکومت آزادکشمیر ہر طرح کی سہولت اور وسائل فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ عرصے سے آزاد کشمیر میں عالمی اداروں کی دلچسپی میں نمایاں اضافہ ہواہے۔ مثال کے طور پر او آئی سی کے وفد کے علاوہ گزشتہ تین ماہ کے دوران دو مرتبہ اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی وفد نے دارالحکومت مظفرآباد کا دورہ کیا اور وزیراعظم سردار عبدالقیوم نیازی سے اہم ترقیاتی امور پر تبادلہ خیال کیا۔3 فروری کو اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹر برائے پاکستان مسٹر جولین ہارنیس ایک وفد کے ہمراہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی تعاون کے فریم ورک پر تفصیلی تبادلہ خیال کے لیے مظفرآباد تشریف لائے ۔اس پروگرام کا مقصد غربت کا خاتمہ،روزگار کی فراہمی،ماحولیاتی پائیداری اورادارہ جاتی استحکام ہے۔

وزیراعظم سردار عبدالقیوم نیازی نے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے حکومت کی طرف سے اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کیساتھ بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔گزشتہ نومبر میں یو این ڈی پی پاکستان کا وفد مظفرآباد تشریف لایا تھا۔ 28نومبر کو یورپی یونین کی سفیر اندرولا کا مینارا جموں وکشمیر ہاؤس اسلام آباد تشریف لائیں۔انہوں نے وزیراعظم سے ملاقات میں آزادکشمیر کی ترقی اور انفراسٹرکچر کی بہتری میں گہری دلچسپی ظاہر کی اور امید ظاہر کی کہ آزاد کشمیر میں چند ماہ بعد ہونیوالے بلدیاتی انتخابات جمہوریت کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کریں گے۔ خواتین اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے کی کوششوں میں بھرپور تعاون کریں گی۔

عالمی اداروں کی آزادکشمیرمیں دلچسپی حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔ امید ہے کہ رفتہ رفتہ آزادکشمیر میں بیرون ملک سے سیاحوں کی آمد بھی شروع ہوجائے گی۔ اس طرح ترقی کے نئے دروازے کھلیں گے۔خوشحال اور ترقی یافتہ آزادکشمیر میں مقبوضہ کشمیر والوں کے لیے زیادہ کشش ہوگی۔

Exit mobile version